سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(358) جماعت کے انتظار میں کھڑا رہنا

  • 24368
  • تاریخ اشاعت : 2024-11-02
  • مشاہدات : 3279

سوال

(358) جماعت کے انتظار میں کھڑا رہنا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

مکرمی مولانا حافظ ثناء اﷲ مدنی صاحب، السلام علیکم ، چند روز قبل مسجد اہلِ حدیث ریلوے ورکشاپ مغلپورہ لاہور میں بعد نماز مغرب علماء کرام کے مواعظ حسنہ سے استفادہ کا موقعہ ملا۔ نماز عشاء کی اذان کے بعد( مسجد کے صحن میں جہاں جماعت کا انتظام تھا) حاضرین میں سے بعض آپس میں ملنے ملانے اور گفتگو وغیرہ میں کھڑے کھڑے مصروف تھے۔ بعض جماعت کے انتظار میں کھڑے اور بعض بیٹھے ہوئے تھے۔ امامت محترم حافظ محمد یحییٰ عزیز صاحب نے کرانی تھی جو مسجد میں پچھلی صفوں میں موجود تھے۔ تکبیر ابھی نہیں کہی گئی تھی میں بھی چند اصحاب سے سلام کلام کے بعد اگلی صف میں جماعت کے انتظار میں کھڑا ہو گیا تھا کہ میرے قریب بیٹھے ہوئے ایک صاحب نے مجھ سے کہا کہ فرمان رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم    کے مطابق امام کے آنے سے پہلے کھڑے نہیں ہونا چاہیے۔ میرے خیال میں حدیث کا مفہوم سمجھنے میں غالباً انھیں مغالطہ ہوا۔ سو میں نے ان کے موقف کو محل نظر قرار دیا۔ جلدی ہی امام صاحب( حافظ محمد یحییٰ عزیز صاحب) امامت کے لیے بڑھے اور میں نے مصلے تک پہنچنے سے پہلے ہی انھیں روک کر یہ مسئلہ دریافت کیا تو انھوں نے بھی مختصراً بتا دیا کہ امام کے آنے سے پہلے کھڑے نہیں ہونا چاہیے۔ خیر نماز کے بعد میں نے صاحب مذکور( جس نے مجھے کھڑے ہونے سے منع کیا تھا) سے وضاحت طلب کی کہ کیا امام کے مصلے پر آجانے سے پہلے کھڑے نہیں ہونا چاہیے؟ تو انھوں نے اثبات میں جواب دیا۔ حالانکہ وہ خود بھی امام کے مصلے پر پہنچنے سے پہلے کھڑے ہو چکے تھے۔ جس کی نشاندہی پر انھوں نے کہا کہ ان سے غلطی ہو گئی ۔ ظاہر ہے وہ اسی مفہوم کے قائل ہیں کہ امام کے مصلے پر پہنچ جانے سے پہلے کھڑے ہونا منع ہے میں نے ان سے یہ بھی کہا کہ یہاں اکثر علماء کرام ابھی کھڑے ہیں تو انھوں نے کہا کہ یہ تو کسی اور کام کی وجہ سے کھڑے ہیں حالانکہ خیال ہے کہ وہ لوگ باہمی دلچسپی کی باتوں میں مصروف ہوں گے۔ اس محدود سے وقت میں معاملہ کچھ عجیب سا لگا کہ کھڑے کھڑے ایک دوسرے سے باتیں کر لیں تو جائز اور اگر نماز کے انتظار میںکھڑے ہوں تو ناجائز۔ حالانکہ یہ کھڑے ہونا صف بندی میں شمار نہیں ہوتا۔

اب اس سلسلے میں جو احادیث مجھے معلوم ہو سکیں وہ درج ذیل ہیں:

1          راوی ابو قتادہ رضی اللہ عنہ  : رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم   نے فرمایا:

کہ جب نماز کی تکبیر ہو تو جب تک مجھ کو نہ دیکھ لو کھڑے نہ ہو۔

صحیح البخاری،بَابٌ: مَتَی یَقُومُ النَّاسُ، إِذَا رَأَوُا الْإِمَامَ عِنْدَ الْإِقَامَۃِ،رقم:۶۳۷، و صحیح مسلم، رقم:۶۰۴

2          راوی ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ  : رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم    تشریف لائے اور نماز کی تکبیر ہو گئی تھی۔ صفیں برابر ہو چکی تھیں۔ جب آپ مصلے پر کھڑے ہوئے۔ ہم انتظار میں تھے کہ اب تکبیر کہتے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم    لوٹے اور فرمایا :تم اسی جگہ کھڑے رہو۔ ہم اسی حال میں ٹھہرے رہے یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم    نکلے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم    کے سَر سے پانی ٹپک رہا تھا۔ آپ نے غسل کیا تھا۔ صحیح البخاری،بَابٌ: ہَلْ یَخْرُجُ مِنَ المَسْجِدِ لِعِلَّۃٍ؟ ،رقم:۶۳۹ و صحیح مسلم،بَابُ مَتَی یَقُومُ النَّاسُ لِلصَّلَاۃِ،رقم:۶۰۵

3          راوی ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ  : نماز کی تکبیر ہوئی لوگوں نے صفیں برابر کر لیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم    باہر نکلے، آگے بڑھ گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم    جنبی تھے۔ پھر فرمایا یہیں ٹھہرے رہو اور لوٹ گئے ، غسل کیا پھر باہر نکلے اور سَر سے پانی ٹپک رہا تھا۔ پھر لوگوں کو نماز پڑھائی۔ صحیح البخاری،بَابُ إِذَا ذَکَرَ فِی المَسْجِدِ أَنَّہُ جُنُبٌ، یَخْرُجُ کَمَا ہُوَ، وَلاَ یَتَیَمَّم،رقم:۲۷۵ ،صحیح مسلم، بَابُ مَتَی یَقُومُ النَّاسُ لِلصَّلَاۃِ،رقم:۶۰۵

4          راوی ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ  : نماز کی تکبیر آپ صلی اللہ علیہ وسلم    کے لیے کہی جاتی تھی اور لوگ صفوں میں اپنی جگہ لے لیتے تھے۔ قبل اس کے کہ آپ اپنی جگہ کھڑے ہوں۔ صحیح مسلم، بَابُ مَتَی یَقُومُ النَّاسُ لِلصَّلَاۃِ،رقم:۶۰۵

5          راوی جابر رضی اللہ عنہ  : بلال جب زوال ہوتا اذان دیتے اور اقامت نہ کہتے یہاں تک کہ آپ تشریف لائیں، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم    تشریف لاتے اور بلال رضی اللہ عنہ   دیکھ لیتے تب تکبیر کہتے۔

حاصلِ مقصد: محولہ بالا روایات کو ملا کر پڑھنے سے میری دانست میں یہ مفہوم ہے کہ امام کو مسجد میں آتا دیکھ کر ہی تکبیر کہی جائے اور صف بندی بھی کر لی جائے خواہ امام کو مصلے پر پہنچنے میں کچھ دیر ہی کیوں نہ ہو جائے جیسے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم    کو غسل کرنے میں کچھ وقت لگا ہو گا لوگوں کو کھڑا ہونے کا حکم تنزیہی ہو گا تحریمی نہیں اور وہ بھی لوگوں کو تکلیف کے پیشِ نظر ، اہلحدیث کی مساجد میں عموماً یہی عمل ہے۔ اس سلسلے میں صحیح راہنمائی فرما کر عند اﷲ ماجور ہوں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اصل یہی ہے کہ مقتدی امام کی آمد کے وقت کھڑے ہوں۔ چنانچہ امام ابو داؤد نے اپنی ’’سنن‘‘ میں مسئلہ ہذا پر بایں الفاظ تبویب قائم کی ہے:

’بَابُ فِی الصَّلوٰة تُقَامُ، وَ لَم یَاتِ الاِمَامُ یَنتَظِرُونَهُ قُعُودًا ۔‘

 یعنی ’’نماز کی تکبیر ہو جاتی ہے اور امام نہیں آیا مقتدی بیٹھ کر انتظار کریں۔‘‘

حضرت علی رضی اللہ عنہ   اور ابراہیم نخعی رحمہ اللہ  کے آثار بھی اس امر کے مؤید ہیں۔ (العون:۲۱۳/۱) اور جن بعض احادیث میں امام کی آمد سے قبل مقتدیوں کے کھڑا ہونے کا بیان ہے ۔ یہ صرف جواز پر محمول ہو گا۔ یا یوں کہا جائے کہ ابو قتادہ رضی اللہ عنہ   کی روایت میں دراصل چوتھی حدیث ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ   میں وارد فعل سے نہی کا بیان ہے۔ لفظ ’’فَلَا تَقُومُوا حَتّٰی تَرَونِی قَد خَرَجتُ‘‘(صحیح مسلم، بَابُ مَتَی یَقُومُ النَّاسُ لِلصَّلَاۃِ،رقم۶۰۴)سے اس کی راہنمائی ہوتی ہے ۔ لوگوں کی عادت تھی کہ وہ اقامت کے وقت کھڑے ہو جاتے تھے۔ اگرچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم    برآمد نہ ہوتے ۔ا س سے منع کیا گیا ہے ممکن ہے کسی شغل کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم    جلدی برآمد نہ ہو سکیں۔ کھڑے انتظار گراں گزرے۔ لیکن بخاری میں انس رضی اللہ عنہ   کی حدیث میں بعد از تکبیر بعض حضرات سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم    کی طویل سرگوشی کا بھی تذکرہ ہے۔ ممکن ہے یہ واقعہ نادر ہو یا فعل ہذا محض جواز کے لیے ہو۔

نیز جابر بن سمرہ اور ابو قتادہ رضی اللہ عنہما  کی روایات میں وجہِ ’’جمع‘‘ یوں ہے،کہ بلال رضی اللہ عنہ   آپ صلی اللہ علیہ وسلم    کے برآمد ہونے کا انتظار کرتے۔ آپ کو گھر سے نکلتے دیکھ کر فوری تکبیر کہتے ۔ اس سے پہلے کہ اکثریت کو نظر آئیں۔ پھر لوگ جب آپ کو دیکھ لیتے۔ وہ بھی کھڑے ہو جاتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم    اپنی جگہ نہ کھڑے ہوتے، یہاں تک کہ لوگ اپنی صفیں درست کر لیتے۔

اس سلسلہ میں جمہور اہلِ علم کا مسلک یہ ہے، کہ امام جب مسجد میں موجود نہ ہو اور اقامت ہو جائے ، مقتدی کھڑے نہ ہوں۔ امام کی آمد کا انتظار کریں اور جب وہ مسجد میں موجود ہو، تو لوگ تکبیر کے وقت کھڑے ہوں اور مؤطا میں امام مالک رحمہ اللہ  فرماتے ہیں: کہ اس میں کوئی حد بندی نہیں۔ اس کا انحصار لوگوں کی استطاعت پر ہے ۔ کئی بھاری ہیں اور کئی ہلکے ہیں۔

نیز حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ   کی دوسری اور تیسری روایات میں ایک ہی واقعہ کا ذکر ہے۔ اس پر امام بخاری رحمہ اللہ  نے بایں الفاظ تبویب کی ہے:’بَابُ اِذَا قَالَ الاِمَامُ مَکَانَکُم ، حَتّٰی رَجَعَ انتَظَرُوهُ ۔‘

یعنی ’’امام جب مأمومین سے کہے۔ اپنی جگہ ٹھہرے رہو۔ یہاں تک کہ وہ واپس آئے۔ مقتدی اس کا انتظار کریں۔‘‘

 اور ابو قتادہ رضی اللہ عنہ کی حدیث پر یوں عنوان قائم کیا ہے:

’ بَابُ حَتّٰی یَقُومَ النَّاسُ اِذَا رَأَو الاِمَامَ عِندَ الاِقَامَةِ ۔‘

اس سے معلوم ہوا اقامت اور تکبیر تحریمہ میں بوقت ِ ضرورت وقفہ ہو سکتا ہے اور بعد از اقامت بحکم امام کھڑے کھڑے انتظار درست ہے۔ مقتدیوں کو جلدی نہیں کرنی چاہیے اور انبیاء  علیہ السلام   کے حق میں نِسیان(بھول چوک) ممکن ہے۔

  ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ حافظ ثناء اللہ مدنی

کتاب الصلوٰۃ:صفحہ:329

محدث فتویٰ

تبصرے