السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
تعلیم الاسلام، ،ص:۴۰۰ پر لکھا ہے کہ ’’ اے تنہا نماز پڑھنے والے تو صف میں کیوں داخل نہیں ہو گیا یا صف میں سے کسی کو کھینچ کر کیوں نہیں لایا؟ تو اپنی نماز لوٹا(اے ابو لیلیٰ) المجمع،ج:۹۲/۲
لیکن نمازِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ، مرتبہ ڈاکٹر شفیق الرحمن کے صفحہ ۱۲۹، پر لکھا ہے کہ:
’’اگر صف میں جگہ ہے تو پیچھے اکیلے کی نماز نہیں ہوتی اور اگر صف میں جگہ نہیں ہے تو یہ اضطراری کیفیت ہو گی ، ایسی صورت میں اکیلے ہی کھڑا ہوجانا چاہیے، کیونکہ اگلی صف میں سے کسی کو پیچھے کھینچنا کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں۔ امام مالک، احمد، اوزاعی، اسحاق ور ابوداؤدs کا یہی مذہب ہے کہ صف سے آدمی کو نہ کھینچا جائے۔ البتہ ایک امام اور ایک مقتدی والے مسئلہ پر قیاس کرکے اس کا جواز ملتا ہے۔‘‘
اس توجیہ سے اطمینان نہیں ہوا کیونکہ جب کبھی کسی امام یا مقتدی کا وضو فسخ ہو جائے تو اسے امامت سے ہٹنا اور پچھلے مقتدی کو امام بنانا ہوتا ہے اور وضوء فسخ ہونے والے کو مقتدیوں کی متعدد صفوں میں سے پیچھے نکلنا ہوگا۔ لا محالہ کچھ خلل تو ہوگا پھر مل جانے سے معمولی خلل دور ہو جائے گا۔ علی ہذا القیاس پیچھے کھینچے گئے نمازی کی جگہ بآسانی پر ہو سکتی ہے۔ دوسری طرف اکیلے شخص کی نماز نہیں ہوتی۔
ثانیاً : یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ جس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اکیلے نمازی کو نماز لوٹانے کا حکم دیا تو کیا صف میں جگہ باقی تھی یا نہیں؟ پھر متذکرہ بالا شروع کی روایت میں پیچھے کھینچنے کا ذکر بھی کیا گیا ہے۔ صحیح طریقہ کیا ہونا چاہیے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
ایسے شخص کو چاہیے کہ صف میں دائیں بائیں کھڑا ہونے کی جگہ تلاش کرے۔بصورتِ دیگر امام کی دائیں جانب کھڑا ہو۔ یہ بھی ناممکن ہو تو صف سے آدمی کھینچ لے۔ اگرچہ حدیث ضعیف ہے لیکن ابن عباس رضی اللہ عنہما کا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نمازِ تہجد والی روایت سے اتنی ہی حرکت کا جواز معلوم ہوتا ہے۔(تفصیلی بحث کے لیے دیکھئے الاعتصام،۱۴، ستمبر۱۹۹۰ء)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب