السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ہماری مسجد میں ایک مولوی صاحب نے نماز مغرب کی امامت کروائی اور صف بندی کرواتے ہوئے درج ذیل الفاظ کہے، ’’نماز کے لیے ایڑھی سے ایڑھی ملانا فرض ہے اور اگر ایڑھی سے ایڑھی نہ ملائی جائے تو دل میں فتور پیدا ہوتا ہے‘‘ جب کہ حافظ محمد عبد اللہ روپڑی رحمہ اللہ کے فتویٰ کے حوالہ سے ایک مولانا صاحب نے بتایا ہے کہ ایڑھی سے ایڑھی ملانا تو کجا ٹخنے سے ٹخنا ملانا بھی مشکل ہے، صرف پائوں سے پائوں مل جائیں تو بہتر ہے۔
آپ سے یہ سوال ہے کہ کیا ایڑھی سے ایڑھی ملائیں؟ یا ٹخنے سے ٹخنا؟ یا پائوں سے پائوں؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
جماعت میں ہر نمازی کا کندھا، دوسرے کے کندھے، اورٹخنا دوسرے کے ٹخنے کے ساتھ ملا ہوا ہونا چاہیے۔ چنانچہ صحیح بخاری کے ’’ترجمۃالباب‘‘ میں حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ
’ رَأَیتُ الرَّجُلَ مِنَّا یُلزِقُ کَعبَهٗ بِکَعبِ صَاحِبِهٖ‘
’’میں نے دیکھا کہ ہم میں سے ہر شخص اپنا ٹخنا اپنے ساتھی کے ٹخنے کے ساتھ ملاتا تھا۔‘‘
حضرت انس رضی اللہ عنہ کی مرفوع روایت میں ہے:
’ وَکَانَ أَحَدُنَا یُلزِقُ مَنکِبَهٗ بِمَنکِبِ صَاحِبِهٖ وَقَدَمَهٗ بِقَدَمِهٖ۔‘ صحیح البخاری،بَابُ إِلْزَاقِ المَنْکِبِ بِالْمَنْکِبِ وَالقَدَمِ بِالقَدَمِ فِی الصَّفِّ،رقم:۷۲۵
’’ ہم میں سے ہر شخص دوسرے کے کندھے سے اپنا کندھا اور اُس کے قدم سے اپنا قدم ملاتا تھا۔‘‘
جب ٹخنے سے ٹخنا ملے گا، تو ایڑھی سے ایڑھی خود بخود مل جائے گی، اسی طرح پائوں بھی مل جائیں گے۔ لہٰذا اس میں کوئی تعارض نہیں۔ محدث روپڑی رحمہ اللہ نے صورتِ مذکورہ کو قطعاً مشکل قرار نہیں دیا۔ بلکہ انہوں نے بار بار پائوں ملانے کو ناپسند فرمایا ہے۔ فرماتے ہیں:
’’ کیونکہ نماز میں بلاوجہ پائوں کو اِدھر اُدھر کرنا ناجائز ہے بلکہ تمام نماز میں پائوں ایک جگہ رکھنے کی کوشش کرنی چاہیے، تاکہ نماز میں فضول حرکت نہ ہو۔‘‘ (فتاویٰ اہلِ حدیث: ۱۹۹/۲)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب