السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
نعمان بن بشیر کی روایت میں ٹخنے سے ٹخنہ ملانے کا ذکر ہے جب کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ کی حدیث میں صرف قدم سے قدم ملانے کا ذکر ہے۔ حافظ روپڑی ؒٹخنے سے ٹخنہ ملانے کے قائل نہیں۔ ٹخنہ ملانے کے لیے پائوں اندر کی طرف موڑنا پڑتا ہے جس سے انگلیاں قبلہ رُخ نہیں رہتیں۔ زیادہ دیر کھڑے رہنا بھی مشکل ہوتا ہے۔ کیا محدث روپڑی کا اجتہاد درست ہے کہ ٹخنے سے ٹخنہ نہیں ملانا چاہیے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
ہمارے شیخ محدث روپڑی رحمہ اللہ کا یہ فتویٰ ’’فتاوٰی اہل حدیث‘‘ (۲؍ ۱۹۹)میں درج ہے۔ اس میں انہوں نے نمازی کی اضطرابی کیفیت کی تردید کی ہے۔ جس سے آپ کا مدعا مترشح ہونا ممکن ہے، صراحت نہیں۔ اصل بات یہ ہے، کہ نماز میں کندھے سے کندھا اور قدم سے قدم ملانا چاہیے۔ جس طرح کہ صحیح احادیث سے ثابت ہے۔ البتہ اس کو ملانے کی کیفیت میں تردد ہے، کہ یہ کیسے ممکن ہے ۔
گزارش یہ ہے کہ ہمارے ہاں عام طور پر انگلیوں کے اطراف کو ملاتے ہیں۔ اس طرح سے صحیح مسنون کیفیت کا پیدا ہونا واقعی مشکل امر ہے، لیکن اگر ابتداء میں ہی اطراف انگلیوں کی بجائے قدموں کے ملانے سے آغاز کیا جائے تو مشکل خود بخود حل ہو جاتی ہے۔ اس طرح سے چھوٹے بڑے قدم کا امتیاز بھی غالباً ختم ہو جاتا ہے۔ البتہ چھوٹے بڑے قدم کی صورت میں کندھوں کی امتیازی کیفیت باقی رہتی ہے۔ بعض دفعہ پائوں میں بھی یہ کیفیت ہوسکتی ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ حدیث میں جو کچھ بیان ہوا۔ عام جسمانی ساخت کے اعتبار سے ہے۔ خواہ یہ حکم تمام کو شامل نہیں۔ ہاں اپنی نیک نیت کی بناء پر اجر و ثواب سے وہ شخص محروم نہیں۔ (ان شاء اللہ)مسنون کیفیت کو قائم رکھنے کا جذبہ اگر جانِبَینِ سے ہو، توپھر کوئی ایسی الجھن پیدا نہیں ہوتی جس سے نماز میں خلل واقع ہو۔ باعثِ تشویش وہ صورت ہے جب جانبیین سے عملی اتفاق کا مظاہرہ نہ ہو۔ ایسی صورت میں مزیدالجھائو میں نہیں پڑنا چاہیے، تاکہ نمازی بحالتِ نماز عملِ کثیرسے محفوظ رہ سکے جس کی وجہ سے نمازمیں نقص پیدا ہونے کا اندیشہ ہوتا ہے۔ اس امر کی مزید وضاحت کرتے ہوئے قاری نعیم الحق نعیم ؒ رقمطراز ہیں:
’’جن احادیث میں قدم سے قدم اور کندھے سے کندھے ملانے کا ذکر آتا ہے، ان کا مقصد یہ ہے کہ تمام نمازی صف میں ایک دوسرے کے ساتھ مل کر کھڑے ہوںاور درمیان میں خالی جگہ نہ چھوڑیں۔کسی کے قد یا قدم کا چھوٹا بڑا ہونا اس مقصد کے حصول میں رکاوٹ نہیں بن سکتا۔ باقی رہی بات قدرتی ساخت کی تو اس سلسلے میں عرض ہے، کہ اگر کسی کے قدموں کا رُخ کچھ ہی باہر کی جانب ہو اور انہیں سیدھا کرنا تکلیف کا سبب بنتا ہو، تو ایسے شخص کو تو اس حکم سے مستثنیٰ بھی قرار دیا جاسکتا ہے۔﴿لَا یُکَلِّفُ اللّٰهُ نَفسًا اِلَّا وُسعَهَا﴾ لیکن عام طور پر لوگوں کے قدم تھوڑی سی کوشش اور معمولی سے اہتمام سے سیدھے ہو جاتے ہیں۔ امام ،مقتدی اور منفرد سب ہی کو حکم ہے، کہ ان کے جسم قدموں سمیت قبلہ رُخ ہوں۔ اس حکم کی پابندی سے احتراز کرنے کے لیے خواہ مخواہ عذر اور حیلے نہیں تراشنے چاہئیں۔ حقیقت یہ ہے کہ قدموں کو سیدھا کرنے کی کوشش دراصل نماز اور زندگی کو سیدھا اور قبلہ رُخ کرنے کی کوشش ہے۔ اس میں نماز میں خلل پڑنے کے بجائے نماز اور زندگی کی اصلاح اور درستی ہوتی ہے۔ ہماری اس مختصر سی بحث سے امید ہے کہ اس بارے میں وارد جملہ اشکالات رفع ہو جائیں گے۔ ‘‘
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب