السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا ننگے سَر نماز پڑھی جا سکتی ہے ؟ جب کہ کپڑا بھی موجود ہو۔ نیز یہ بھی ثابت ہے کہ کالا عمامہ سنت ہے کیا یہ سنت سَر پر کپڑا رکھ کر نماز پڑھنے کو بھی ثابت کر رہی ہے۔ نیز ٹوپی کے ساتھ یا بغیر ٹوپی کے نماز میں اجر کے لحاظ سے افضل یا ادنیٰ کافر ق پڑتا ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
کپڑے کی موجودگی کے باوجود ننگے سَر نماز پڑھی جا سکتی ہے۔(صحیح البخاری،بَابُ عَقْدِ الإِزَارِ عَلَی القَفَا فِی الصَّلاَۃِ،رقم:۳۵۲) کالے عمامہ سے صرف اس کے پہننے کا جواز معلوم ہوتا ہے۔ بحالتِ نماز بطورِ خاص اس سے استدلال کرنا مشکل امر ہے، اگرچہ عام معمول آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا پگڑی پہننا تھا، لیکن صحیح بخاری کی روایت میں حضرت عمر بن ابی سلمہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے:
’ رَأَیتُ رَسُولَ اللّٰهِ ﷺ یُصَلِّی فِی ثَوبٍ وَاحِدٍ فِی بَیتِ أمِّ سَلَمَةَ، وَ قَد أَلقٰی طَرَفَیهِ عَلٰی عَاتِقَیهِ ‘صحیح البخاری، بَابُ الصَّلاَةِ فِی الثَّوْبِ الوَاحِدِ مُلْتَحِفًا بِهِ،رقم:۳۵۵
یعنی ’’میں نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کو اُمّ سلمہ رضی اللہ عنہا کے گھر میں ایک کپڑے میں نماز پڑھتے دیکھا ہے، اس کی دونوں طرفوں کو آپ نے دونوں کندھوں پر ڈالا ہوا تھا۔‘‘
پھر صحیح بخاری وغیرہ میں مُصَلّٰی امامت (امامت کی جگہ) پر تذکُّرِ غسل (جنابت کے غسل کے یاد آنے) جنابت والی روایت سے مترشح(واضح) ہے، کہ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ننگے سَر نماز پڑھائی تھی۔
ٹوپی یا غیر ٹوپی کے ساتھ نماز پڑھنا بظاہر یکساں جواز ہے۔ اگر ایسا کوئی مسئلہ ہوتا، تو جہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورت کے بارے میں فرمایا: کہ اس کی نماز بغیر دوپٹہ قبول نہیں ہوتی، وہاں مرد کو بھی اَمر دیا جا سکتا تھا۔ اس وقت حکم نہ دینا،اس بات کی دلیل ہے ،کہ مرد کے لیے ننگے سَر نماز پڑھنا جائز ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب