السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
چند دنوں سے ہمارے ایک قاری صاحب ہر نمازِ جنازہ میں ننگے سَر پر سخت تنقید کرتے ہیں۔ وہ یہ الفاظ ادا کرتے ہیں۔‘‘ مسلمان مذہب کے اندر بامرِ مجبوری سَر ننگے سے عام نماز یا نمازِ جنازہ ہو جاتی ہے جہاں کپڑا مل جائے اور انسان جان بوجھ کر ننگے سَر سے نماز پڑھے تو اُس کی نماز نہیں ہوتی۔‘‘
آپ قرآن و حدیث کی روشنی میں مجھے دلیل کے ساتھ جواب دیں۔
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
کسی مجبوری کے بغیر بھی ننگے سَر نماز پڑھنا جائز ہے صحیح بخاری ’’باب عقد الإزار علی القفا فی الصلاۃ‘‘ کے تحت حضرت جابر رضی اللہ عنہ کا قصہ موجود ہے، کہ انھوں نے دوسرے کپڑے کی موجودگی کے باوجود صرف اَزار بَند کو گدی پر باندھ کر نماز پڑھی۔ دوسرے شخص نے جب اعتراض کیا، تو فرمایا:
’ انَّمَا صَنَعتُ ذٰلِكَ لِیَرَاَنِی أَحمَقُ مِثلُكَ ‘ صحیح البخاری،بَابُ عَقْدِ الإِزَارِ عَلَی القَفَا فِی الصَّلاَةِ،رقم:۳۵۲
یعنی ’’میں نے یہ فعل اس لیے کیا ہے، تاکہ تجھ جیسا بے وقوف مجھے دیکھ لے۔‘‘
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماے ہیں:
’ وَالغَرضُ بَیَانُ جَوَازِ الصَّلَاةِ فِی الثَّوبِ الوَاحِدِ، وَ لَو کَانَت الصَّلٰوةُ فِی الثَّوبَینِ أَفضَلُ ، فَکَأَنَّهٗ قَالَ: صَنَعتُهٗ عَمَدًا لِبَیَانِ الجَوَازِ: إِمَّا لِیَقتَدِیَ بِی الجَاهِلُ إِبتِدَاءً، أَو یُنکِرُ عَلَیَّ، فَاُعلِمُهٗ أَنَّ ذٰلِكَ جَائِزٌ۔‘(فتح الباری(۴۶۷/۱)
مقصود اس سے ایک کپڑے میں نماز پڑھنے کا جواز بیان کرنا ہے، اگرچہ دو میں افضل ہے ۔ گویا کہ کیا اس نے اس فعل کو جواز بیان کرنے کے لیے عمداً کیا ہے، تاکہ جاہل انسان ابتدائً میری اقتداء کرسکے یا مجھ پر انکار کرے، تو میں وجہ جواز بیان کردوں؟ نیز صحیح بخاری میں’’باب الصلاۃ فی القمیص والسراویل والتبان والقبائ‘‘ کے تحت حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے۔ یعنی انسان تہ بند اور چادر میں بھی نماز پڑھ سکتا ہے۔ نیز تہ بند اور قمیص میں، تہہ بند اور چوغہ میں، پاجامہ اور چادر میں، پاجامہ اور قمیص میں۔ صحیح ابن حبان میں بروایت ابی ہریرۃ رضی اللہ عنہ اسی مفہوم کی ایک مرفوع روایت بھی بیان ہوئی ہے۔
پھر رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے کپڑا فراخ ہونے کے وقت کندھے ڈھانکنے کا حکم دیا ہے سَرکا نہیں۔
اس سے صاف معلوم ہوا کہ نماز میں سَر ڈھانکنا ضروری نہیں۔مولوی احمد رضا بریلوی نے ’’احکامِ شریعت‘‘ میں ننگے سَر نماز پڑھنے کو زیادہ خشوع و خضوع کا باعث قرار دیا ہے۔ لہٰذا قاری صاحب موصوف کو اپنے متشددانہ موقف پر نظر ثانی کرنی چاہیے۔ (واﷲ ولی التوفیق)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب