السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
اہلِ حدیث مساجد میں نمازی اکثر جان بوجھ کر ننگے سَرنماز پڑھتے ہیں۔ کیا حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بھی ننگے سَر نماز ادا کیا کرتے تھے؟ کیا یہ فعل پسندیدہ اور افضل ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
ننگے سَر نماز پڑھنے کا جوازہے، جس طرح کہ متعدد روایات سے ثابت ہے۔ مثلاً رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک کپڑا اوڑھ کر نماز پڑھی ہے جس کے پڑھنے کی صورت یہ تھی، کہ کپڑے کی دونوں طرفیں خلاف سمت سے کندھے پر ڈال لیں، یعنی کپڑے کی دائیں طرف بائیں کندھے پر، اور بائیں طرف دائیں کندھے پر ڈالی۔ جس کا صاف مطلب یہ ہے، کہ سَر پر کچھ نہ تھا۔ ہاں البتہ سَر کا ڈھکنا افضل ہے۔ ( جو بمقابلہ جواز ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ اگر کوئی جواز پر عمل کرے، تو اس پر طعن و تشنیع نہیں کرنا چاہیے) کیونکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے خطبہ کے دوران کبار صحابہ رضی اللہ عنہم کی موجودگی میں فرمایا تھا:
’ اِذَا وَسَّعَ اللّٰهُ فَاَوسِعُوا ‘صحیح البخاری، بَابُ الصَّلاَةِ فِی القَمِیصِ وَالسَّرَاوِیلِ… الخ، رقم: ۳۶۵
یعنی ’’جب اﷲ فراخی کرے تم بھی فراخی کرو۔‘‘
مولوی احمد رضا خان بریلوی نے ’’احکامِ شریعت‘‘ میں ننگے سَر نمازپڑھنے کو افضل قرار دیا ہے۔ کیونکہ اس میں خشوع و خضوع زیادہ ہے۔ اس کے برعکس علامہ ناصر الدین البانی نے ننگے سَر نماز پڑھنے کو مکروہ کہا ہے۔ فرماتے ہیں:
’ وَالَّذِی أَرَاهُ فِی هٰذِهِ المَسأَلَةِ أَنَّ الصَّلَاةَ حَاسِرُ الرَّاسِ مَکرُوهَةٌ ‘تمام المنة(۵۹/۱) بحواله المسجد فی الاسلام،ص:۲۱۵)
لیکن علامہ موصوف کے نظریہ سے موافقت کرنا مشکل امر ہے۔ دلائل اپنی جگہ روزِ روشن کی طرح عیاں ہیں۔ بطورِ مثال صحیح بخاری کی ’’کتاب الصلوٰۃ‘‘ کی طرف رجوع فرمائیے:حقیقتِ حال واضح ہو جائے گی۔ (ان شاء اﷲ)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب