سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(311) نماز میں سر ڈھانپنے کا حکم

  • 24321
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-23
  • مشاہدات : 505

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کاسر ڈھانکنے کے سلسلہ میں کیامعمول تھا؟کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم    ہمیشہ ننگے سر نماز پڑھتے تھے یا سر ڈھانک کر؟ان ہر دو اعمال میں سے کون سا عمل سنت ِنبوی صلی اللہ علیہ وسلم    کے زیادہ قریب ہے یااجر و ثواب کے لحاظ سے کون سا عمل دوسرے سے بڑھ کر ہے؟ (ماسٹر لال خان )


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم   کے قول و عمل سے دونوں طرح نماز پڑھنا ثابت ہے :

’أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ صَلَّی فِی ثَوْبٍ وَاحِدٍ قَدْ خَالَفَ بَیْنَ طَرَفَیْهِ‘صحیح البخاری،بَابُ الصَّلاَةِ فِی الثَّوْبِ الوَاحِدِ مُلْتَحِفًا بِهِ،رقم۳۵۴

’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم   نے ایک ہی کپڑا اوڑھ کر نماز پڑھی جس کے پڑھنے کی صورت یہ تھی کہ کپڑے کے دونوں سرے اُلٹے کرکے دوسرے کندھے پر ڈال لیے۔‘‘

اس سے صاف ظاہر ہے کہ سر ننگا تھا۔ نیزبلوغ المرام باب شروط الصلاۃ میں ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم    ہے کہ جب کپڑا فراخ ہو تو اوڑھ لے، یعنی صحیح بخاری اورصحیح مسلم کی روایت میں اوڑھنے کا طریقہ بتایا ہے کہ کپڑے کی دونوں طرفین خلاف طور پر کرے۔(متفق علیہ)

یہ قولی حدیث کی مثال ہے ،جبکہ پہلی حدیث کا تعلق عمل سے ہے۔ اس بارے میں وارد تمام احادیث کی روشنی میں یہی نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ سرڈھانک کر یا ننگے سر نماز پڑھنے کاجواز ہے، کسی ایک جانب کو ترجیح دینا بلادلیل ہے، تاہم شریعت میں عورت کے لئے سرڈھانکنا ضروری قرا ردیا گیا ہے۔ ننگے سر اس کی نماز نہیں ہوتی۔ چنانچہ صحیح حدیث میں ہے:

ان النبی صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قال : لَا یقبَلُ اللّٰهُ صَلٰوةَ حَائِضٍ اِلَّا بِخِمَارٍ۔‘ سنن ابن ماجه،بَابُ فَضلِ اللَّهُمَّ رَبَّنَا لَكَ الحَمدُ ،رقم:۶۵۵،سنن أبی داؤد،رقم:۶۴۱، سنن الترمذی، بَابٌ: مَا جَاءَ لاَ تُقبَلُ صَلاَةُ الحَائِضِ إِلاَّ بِخِمَارٍ ،رقم:۳۷۷

’’اللہ تعالیٰ بالغہ عورت کی نماز بلااوڑھنی کے قبول نہیں کرتا۔‘‘

اس حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ مرد کے لئے نماز میں سرڈھانکنا ضروری نہیں، اس کو دونوں طرح اختیار ہے۔ لہٰذا دونوں صورتوں میں اجر و ثواب برابر ہے، تفریق کی کوئی وجہ نہیں۔

  ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ حافظ ثناء اللہ مدنی

کتاب الصلوٰۃ:صفحہ:300

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ