السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا واقعی عورت، گدھا اور کالے کتے کے نمازی کے آگے سے گزرنے سے نماز ٹوٹ جاتی ہے ؟اگر یہ حدیث صحیح ہے تو کیا منسوخ ہے یا ابھی تک اس کا حکم برقرار ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
مسئلہ ہذا سخت اختلافی مسائل میں سے ایک ہے۔ اہلِ علم کے اس میں متعدد مذاہب ہیں۔ جن کی بناء زیادہ تر دلائل مستنبطہ ہے۔ جملہ مذاہب میں سے ہمارے نزدیک محقق اور راجح بات یہ ہے، کہ نمازی کے سامنے سے کسی بھی شے کے گزرنے سے نماز قطع نہیں ہوتی۔ اگرچہ سامنے سُترہ نہ ہو۔ قریب ترین بات یہ ہے کہ وہ احادیث جن میں نماز ٹوٹنے کا ذکر ہے، وہ ان احادیث کے ساتھ منسوخ ہیں، جن میں عدمِ قطع کا ذکر ہے۔
علامہ احمد محمد شاکر،ترمذی(۱۶۴/۲) کے حواشی پر رقمطراز ہیں:
’ وَالصَّحِیحُ الَّذِی أَرضَاهُ وَ أَختَارُهٗ أَنَّ أَحَادِیثَ القَطعِ مَنسُوخَةٌ بِحَدِیثِ لَا یَقطَعُ الصَّلٰوةَ شَیئٌ۔‘
’’صحیح بات جس پر میں رضا و پسندیدگی کا اظہار کرتا ہوں، وہ یہ ہے کہ قطع کی احادیث حدیث’’لا یقطع الصلوٰة شَیٌٔ‘‘ (نماز کو کوئی شئی قطع نہیں کرتی) کے ساتھ منسوخ ہیں۔
پھر فرماتے ہیں:
’ وَقَد حَقَّقتُ تَرجِیحَ النَّسخِ فِی تَعلِیقِی عَلَی المُحَلّٰی لِابنِ حَزمٍ ‘ (۱۴/۴۔۱۵)
یعنی ’’المحلّٰی ابن حزم‘‘ کے حواشی پر میں نے نسخ کی تحقیق پیش کی ہے۔‘‘
اور امام ابوداؤد اپنی ’’سنن‘‘ میں ابو سعید کی روایت بیان کرنے کے بعد فرماتے ہیں:
’ اِذَا تَنَازَعَ الخَبرَانِ عَنِ النَّبِیِّ ﷺ نُظِرَ إِلٰی مَا عَمِلَ بِهٖ أَصحَابُهٗ مِن بَعدِهٖ۔‘ سنن أبی داؤد،بَابُ مَنْ قَالَ: لَا یَقْطَعُ الصَّلَاةَ شَیْء ٌ،رقم:۷۲۰
یعنی جب دو احادیث نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے متعارض وارد ہوں، تو دیکھنا یہ ہوگا، کہ بعد میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کاعمل کس پر تھا۔ ان میں سے اکثر جیسے عائشہ، ابن عباس، ابن عمر، علی، عثمان اور حذیفہ] عدمِ قطع کی طرف گئے ہیں، تو یہی مسلک راجح ہونا چاہیے۔ نسخ کی علامات میں سے یہ بھی ہے، کہ ابن عمر اور ابن عباس رضی اللہ عنہما حدیث قطع کے راوی ہیں، اور ان کا اپنا فیصلہ عدمِ قطع کا ہے۔ بحث کے اختتام پر ’’صاحب المرعاۃ‘‘ فرماتے ہیں: ’’المحلّٰی‘‘ پر شیخ احمد کی تحقیق سے معلوم ہوا، کہ حدیث (لَا یَقطَعُ الصَّلٰوة شَیئٌ ) متاخرہے۔ یہ عمدہ تحقیق ہے، اور یہ زیادہ حقدار اور زیادہ لائق ہے کہ اسے قبول کیا جائے۔(۱/۵۱۳)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب