السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
راقم نے مسلم شریف کی حسبِ ذیل دو احادیث پڑھیں جس میں تعارض نظر آیا۔ براہِ کرم انھیں سنتِ رسولِ عربی صلی اللہ علیہ وسلم کی روشنی میں سمجھائیے!
وَ عَن اَبِی هُرَیرَةَ رَضِیَ اللّٰهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللّٰهِ ﷺ: یَقْطَعُ الصَّلَاةَ الْمَرْأَةُ وَالْحِمَارُ وَالْکَلْبُ، وَیَقِی ذَلِكَ مِثْلُ مُؤْخِرَةِ الرَّحْلِ‘صحیح مسلم،بَابُ قَدَرِ مَا یَسْتُرُ الْمُصَلِّی،رقم:۵۱۱،صحیح البخاری،بَابُ مَنْ قَالَ: لاَ یَقْطَعُ الصَّلاَةَ شَیْء ٌ،رقم:۵۱۵
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: عورت، گدھا اور کتا نماز کو توڑ دیتے ہیں اور اس سے کجاوے کی پچھلی لکڑی کی مانند چیز بچاتی ہے۔‘‘
۲۔ ’ وَ عَن عَائِشَةَ رَضِیَ اللّٰهُ عَنْهَا قَالَت: کَانَ النَّبِیُّ ﷺ یُصَلِّی مِنَ اللَّیلِ، وَأَنَا مُعتَرِضَةٌ بَینَهٗ، وَ بَینَ القِبلَةِ کَاِعتِرَاض الجَنَازَة ‘(متفق علیه) صحیح مسلم،بَابُ قَدَرِ مَا یَسْتُرُ الْمُصَلِّی،رقم:۵۱۱
’’ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم رات کو نماز پڑھا کرتے تھے، اور میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اور قبلہ کے درمیان عرض کے بَل سوئی ہوتی۔ جیسا کہ جنازہ سامنے عَرض کے بل رکھا ہوتا ہے۔‘‘
حل طلب مسئلہ یہ ہے، کہ متذکرۂ بالا حدیث نمبر۱ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عورت کی بابت نماز کو توڑنے والی فرمایا ہے۔ جب کہ حدیث نمبر ۲ میں خود رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کا فعل اس کے خلاف ہے ۔ کیا اس میں تعارض ہے؟ تطبیق ہو سکتی ہے؟۔
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
بظاہر متعارض احادیث میں تطبیق یوں ہے، کہ حدیث ابی ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مقصود یہ ہے، کہ نمازی کے آگے سے گزرنا منع ہے، جب کہ حدیث عائشہ رضی اللہ عنہا میں نمازی کے سامنے لیٹنے کا جواز ہے۔ لہٰذا مُصَلّی کے آگے سے گزرنا ناجائز ہے اور اگر سامنے کوئی لیٹا ہوا ہو تو اس کے پیچھے کھڑے ہو کر نماز پڑھ لینا جائز ہے۔ لیٹا ہوا، گزرنے کی تعریف میں نہیں آتا۔
علاوہ ازیں اس میں بھی اختلاف ہے کہ ’’قطع صلوٰۃ‘‘ کا مفہوم نماز کا ٹوٹنا ہے یا اس کے خشوع میں کمی ہے ؟چنانچہ امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: جمہور علمائے سلف اور خلف نے نماز ٹوٹنے کی تأویل نماز سے نقصان سے کی ہے۔ اس لیے کہ ان چیزوں کے گزرنے سے دل ان کی طرف مشغول ہو جاتا ہے۔ یہ نہیں کہ اس سے نماز باطل ٹھہرتی ہو۔
اور امام ابوداؤد رحمہ اللہ نے اپنی ’’سنن‘‘ میں دونوں قسم کی روایات کے لیے مختلف ابواب قائم کیے ہیں۔ بحث کے اختتام پر رقمطراز ہیں :
’ اِذَا تَنَازَعَ الخَبَرَانِ عَنِ النَّبِیِّ ﷺ نُظِرَ إِلَی مَا عَمِلَ بِهِ أَصحَابُهٗ مِن بَعدِهٖ ۔‘ سنن أبی داؤد،بَابُ مَنْ قَالَ: لَا یَقْطَعُ الصَّلَاةَ شَیْء ٌ،رقم:۷۲۰
یعنی ’’نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے جب متعارض احادیث وارد ہوں، تو ان میں یہ دیکھا جاتا ہے، کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا عمل کس پر تھا؟‘‘
صاحب’’عون المعبود‘‘ کلام ہذا کی تشریح میں فرماتے ہیں:
’قُلتُ قَد ذَهَبَ أَکثَرُ الصَّحَابَةِ (رِضوَانُ اللّٰهِ عَلَیهِم أَجمَعِین) إِلٰی أَن لَا یَقطَعَ شَیئٌ۔‘
یعنی میں کہتا ہوں کہ اکثر صحابہ رضی اللہ عنہم اس طرف گئے ہیں کہ کوئی شے نماز کو قطع نہیں کرتی۔
چند سطور بعد فرماتے ہیں: مؤلف کے نزدیک بھی راجح عدمِ قطع ہے۔(۲۶۲/۱)
نیز امام ترمذی رحمہ اللہ نے بھی اکثر صحابہ رضی اللہ عنہم اور تابعین کا مسلک یہی نقل کیا ہے،کہ کسی شے کے نماز ی کے سامنے سے گزرنے سے نماز باطل نہیں ہوتی البتہ خشوع جاتا رہتا ہے۔ (واﷲ أعلم بالصواب و علمہ أتم)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب