سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(304) نمازی کے آگے سے گزرنے کا گناہ

  • 24314
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 545

سوال

(304) نمازی کے آگے سے گزرنے کا گناہ

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

نمازی کے آگے سے گزرنے کا بڑا گناہ حدیث میں وارد ہے مگر ایک مولانا صاحب فرما رہے تھے کہ جتنی حد تک نمازی سجدہ کرتا ہے اگر اس کے درمیان والی جگہ سے گزرا جائے گا تو نماز ٹوٹ جائے گی اگر دوسری صف میں سے گزر جائے گا تو نماز نہ ٹوٹے گی۔ مولانا ثناء اﷲ امرتسری رحمہ اللہ  کے نزدیک صف کی مٹھی ہی اس کا سُترہ ہے کس حد تک بات درست ہے؟ امام شوکانی رحمہ اللہ  کے نزدیک کیا یہی بات درست ہے کہ نمازی جتنی حد تک سجدہ کرتا ہے اس کے درمیان والی جگہ سے گزرے تو نماز ٹوٹ جائے گی وگرنہ نہیں۔ ٹی وی میں بھی ایک مولانا صاحب یہی فرما رہے تھے۔ دوسری صف میں سے گزرے گا تو کوئی گناہ نہیں ہے۔ بینوا وتوجروا۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

سنن ابوداؤد میں حدیث ہے:

’ اِذَا جَعَلَتَ بَینَ یَدَیكَ مِثلَ مُؤَخَّرَةِ الرَّحلِ فَلَا یَضُرُّكَ مَن مَرَّ بَینَ یَدَیكَ ‘سنن أبی داؤد، بَابُ مَا یَسْتُرُ الْمُصَلِّیَ،رقم:۶۸۵

یعنی ’’پالان کی پچھلی لکڑی کے برابر آگے کوئی شے ہو اور پھر کوئی تیرے آگے سے گزر جائے، تو کوئی حرج نہیں۔‘‘

 علامہ عظیم آبادی رحمہ اللہ  ’’عون المعبود‘‘ (۲۵۵/۱)میں فرماتے ہیں:

’ ثُمَّ المُرَادُ مَن مَرَّ بَینَ یَدَیكَ بَینَ السُّترَةِ ، وَالقِبلَةِ ، لَا بَینَكَ ، وَ بَینَ السُّترَةِ ‘

یعنی ’’آگے سے مراد سُترہ اور قِبلہ کا درمیان ہے۔ نہ کہ نمازی اور سُترہ کا درمیان۔‘‘

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ فاصلہ جائے سجود (سجدہ کی جگہ) سے کچھ زیادہ ہونا چاہیے، جس کی حد بندی ’’قَذفَةٌ بِحَجَرٍ‘‘ (کنکری پھینکنے)کے ساتھ کی گئی ہے۔ یعنی پتھر پھینکنے کے بقدر آگے سے گزرنے میں کوئی حرج نہیں۔ لیکن یہ حدیث ضعیف ہے۔ بعض نے فاصلہ تین ہاتھ بیان کیا ہے۔ کیونکہ کعبہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کا فاصلہ یہی تھا اور کچھ نے بکری کے گزرنے کا اندازہ ذکر کیا ہے۔ جس طرح کہ بعض نصوص میں واضح ذکرہے:

’ وَ جَمَعَ الدَّاؤُودِی بِاَنَّ اَقَلَّهٗ مَمَرُّ الشَّاةِ، وَ اَکثَرَ ثَلَاثَةُ اَذرَعٍ۔ وَ جَمَعَ بَعضُهُم بِاَنَّ الاَوَّلَ فِی حَالِ القِیَامِ، وَالقَعُودِ ۔ وَالثَّانِی فِی حَالِ الرُّکُوعِ، وَالسُّجُودِ وَ قَالَ ابنُ الصَّلَاحِ : قَدَّرُوا مَمَرَّ الشَّاةِ بِثَلَاثَةِ اَذرُعٍ قُلتُ: وَ لَا یَخفٰی مَا فِیهِ۔ وَ قَالَ البَغَوِی: اِستَحَبَّ اَهلُ العِلمِ الاَفضَلَ السُّترَةَ بِحَیثِ یَکُونُ بَینَهٗ، وَ بَینَهَا قَدرَ مَکَانِ السُّجُودِ، وَ کَذَالِكَ بَینَ الصُّفُوفِ هَذَا خُلَاصَةُ مَا فِی الفَتحِ ‘ (۲۵۷/۱)

اسی بناء پر ’’سبل السلام‘‘ میں علامہ امیر(صنعانی) کا نظریہ ہے، کہ نمازی کے آگے سے گزرنے کی حُرمت صرف جائے سجود (سجدہ کی جگہ) تک ہے۔ بناء بریں موصوف مولوی صاحب کا فرمان کسی حد تک درست ہے۔ سابقہ حدیث کی بناء پر بہتر ہے‘‘ کہ فاصلہ کچھ زیادہ کر لیا جائے۔

حضرت مولانا ثناء اﷲ امرتسری مرحوم رحمہ اللہ  کی بنیاد غالباً حدیث الخط وغیرہ ہے کہ بوقت ِ ضرورت کوئی چیز بھی سُترہ بن سکتی ہے۔علامہ شوکانی رحمہ اللہ  نے امام نووی رحمہ اللہ  سے نقل کیا ہے: ’وَ یَحصُلُ بِاَیِّ شَیئٍ اَقَامَهٗ بَینَ یَدَیهِ ‘  یعنی ’’نمازی جونسی شے آگے رکھ لے، تو سُترہ کا مقام حاصل ہو جائے گا۔‘‘  حد بندی کے سلسلہ میں بظاہر امام شوکانی رحمہ اللہ  کا اختیار تین ہاتھ ہے۔ ملاحظہ ہو!(نیل الأوطار:۳/۳)

  ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ حافظ ثناء اللہ مدنی

کتاب الصلوٰۃ:صفحہ:294

محدث فتویٰ

تبصرے