سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(295) اوقاتِ ممنوعہ میں سببی اور فرصی نماز ادا کرنے کا حکم

  • 24305
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-19
  • مشاہدات : 1007

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

استاذِ گرامی ٔ قدر! مندرجہ ذیل حدیث کی رو سے راقم کو چند مسائل دریافت کرنے ہیں۔ امید ہے کہ آپ خصوصی شفقت فرمائیں گے۔

حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، نَا وَکِیعٌ، عَن مُوسٰی بنَ عَلِیٍّ بنِ رِبَاحٍ، عَن اَبِیهِ، عَن عُقبَةَ ابنِ عَامِرٍ الجُهَنِیَّ قَالَ: ’ ثَلَاثُ سَاعَاتِ کَانَ رَسُولُ اللّٰهِﷺ یَنهَانَا  اَن نُصَلِّیَّ فِیهِنَّ، اَو نَقبُرَ فِیهِنَّ مَوتَانَا۔ حِینَ تَطلُعُ الشَّمسُ بَازِغَةً، حَتّٰی تَرتَفِعَ ۔ وَ حِینَ یَقُومُ قَائِمُ الظَهرَةِ،  حَتّٰی تَمِیلَ ۔ وَ حِینَ تَضِیفُ لِلغُرُوبِ ، حَتّٰی تَغرُبَ۔‘

قَالَ أَبُو عِیسٰی: هٰذَا حَدِیثٌ حَسَنٌ صَحِیحٌ۔ سنن التِّرمَذِی ، بَابُ مَا جَاءَ فِی کَرَاهِیَةِ الصَّلٰوةِ عَلَی الجَنَازَةِ …الخ،رقم:۱۰۳۰،صحیح مسلم، رقم: ۸۳۱، سنن أبی داؤد،رقم:۳۱۹۲

۱۔         اوقات منع میں فرضی نماز پڑھی جاسکتی ہے؟

۲۔        ان اوقات میں سببی نماز کا کیا حکم ہے؟

۳۔        اس بارے میں مختلف ائمہ کے کیا اقوال ہیں؟ نیز ترجیح کس مذہب کو دی جائے گی؟

۴۔        ان اوقات میں نماز پڑھنے سے کیوں منع کیا گیا ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

۱) فرض نماز ممنوع اوقات میں پڑھی جاسکتی ہے۔چنانچہ صحیح حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم   نے فرمایا:

’ مَن نَسِیَ صَلٰوةً، أَو نَامَ عَنهَا، فَکَفَّارَتُهَا أَن یُصَلِّیهَا ، اِذَا ذَکَرَهَا۔‘ صحیح البخاری، بَابُ مَنْ نَسِیَ صَلاَةً فَلْیُصَلِّ إِذَا ذَکَرَ، وَلاَ یُعِیدُ إِلَّا تِلْكَ الصَّلاَةَ،رقم:۵۹۷

یعنی ’’جو کسی نماز کو بھول گیا یا اس سے سویا رہا پس اس کا کفارہ یہ ہے ، کہ جب یاد آئے پڑھ لے۔‘‘

ظاہر ہے کہ حدیث ممنوع اوقات کو بھی شامل ہے۔ امام مالک،شافعی،احمد اور اسحاقsؒ کا یہی مسلک ہے۔ یہ حدیث اور اس کی ہم معنی دیگر روایات ممانعت کی احادیث کی مخصِّص(خاص کرنے والی) ہیں۔ ’’صحیحین‘‘ کے علاوہ یہ الفاظ بھی وارد ہیں:

’ فَوَقتُهَا حِینَ یَذکُرُهَا۔ لَا وَقتَ لَهَا اِلَّا ذٰلِكَ ‘ (المرعاة  :  ۱؍ ۴۰۰)

اس سے معلوم ہوا کہ یہ وقت اس کی ادائیگی ہی کا ہے۔ نہ کہ قضاء کا۔‘‘

(۲)ممنوع وقت میں سببی نماز پڑھی جاسکتی ہے۔ حدیث میں ہے کہ ’’وفد عبدالقیس‘‘ سے مصروفیت کی بناء پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم   نے ظہر کے بعد والی دو رکعتیں عصر کے بعد پڑھی تھیں۔ امام نووی رحمہ اللہ  اس حدیث کے فوائد بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

’ مِنهَا: أَنَّ الصَّلٰوةَ الَّتِی لَهَا سَبَبٌ۔ لَا تُکرَهُ فِی وَقتِ النَّهیِ۔ وَ اِنَّمَا یُکرَهُ مَا لَا سَبَبَ لَهَا ‘ عون المعبود:  ۱؍۴۹۱

’’اوقاتِ ممنوعہ میں سببی نماز جائز ہے، جب کہ بلا سبب ناجائز ہے۔‘‘

(۳) اس بارے میں ائمہ کے مسالک مختلف ہیں۔ دائود مطلقاً جواز کے قائل ہیں۔ جب کہ امام شافعی سببی کے جواز کے قائل ہیں اور امام ابو حنیفہ نے منع کا مسلک اختیار کیا ہے۔ سابقہ بحث کی بناء پر ترجیح اس کو ہے کہ ممنوع وقت میں سببی نماز پڑھنا جائز ہے ۔ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ  نے بھی مجموع فتاوی میں اسی مسلک کو اختیار کیا ہے۔ نوٹ:تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو!(مرعاۃ : ۲؍۵۱)

  ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ حافظ ثناء اللہ مدنی

کتاب الصلوٰۃ:صفحہ:289

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ