سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(289) وقت سے پہلے اذان ا ور عصر کا اوّل وقت

  • 24299
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-03
  • مشاہدات : 738

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ہمارے شہر کی مرکزی اہلِ حدیث مسجد رحمانیہ والے عصر کی اذان عام طور پر وقت سے پہلے دے دیتے ہیں۔ مثلاً کل اشتہار پر عصر کا وقت ۲۸۔۳ تھا مگر انھوں نے اذان ۱۰۔۳ پر دی۔ پوچھنا یہ ہے کہ ان کی اذان ہوئی یا نہیں۔ انھیں کئی بار کہا بھی ہے مگر وہ لوگ بڑے ضدی ہیں، جس کی وجہ سے لو گ بھی ان سے تنگ ہیں۔ اس کے علاوہ یہ بھی بتادیں کہ عصر کا صحیح وقت،اوّل وقت کس وقت سے کس وقت تک رہتا ہے ، میں نے اپنے شہرکے ایک بزرگ اہلحدیث عالم جو وفات پا چکے ہیں، سے سنا تھا کہ اوّل وقت ۴۵ یا ۵۰ منٹ تک رہتا ہے۔ گویا اس حساب سے آج کل عصر کا وقت ۳۰۔۳ سے ۱۵۔۴ تک اوّل وقت ہے۔ اس کا جواب ضرور دیں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

نماز عصر کے وقت کے بارے میں وارد احادیث ملاحظہ فرمائیں! حدیث امامت ِ جبریل میں ہے:

’وَصَلَّی بِی الْعَصْرَ حِینَ کَانَ ظِلُّهُ مِثْلَیْهِ‘

’’اور پھر عصر پڑھائی جب ہر شے کا سایہ اس کی مثل ہو گیا۔‘‘ رواہ أبی داؤد باب فی المواقیت،رقم:۳۹۳

اور صحیح مسلم میں ہے:’’اور وقت ظہر کا ہے، جب آفتاب ڈھلے اور (رہتا ہے اس وقت تک کہ) ہو سایہ آدمی کا اس کے قد کے برابر۔ جب تک کہ نہ آئے وقت عصر کا اور وقت عصر کا ہے جب تک کہ نہ ہو آفتاب زرد۔‘‘

یاد رہے یہ سایہ سایۂ زوال کے علاوہ ہے اور بریدہ کی روایت میں ہے:

’ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم    نے قائم کی نمازِ عصر، دراں حالیکہ آفتاب تھا بلند سفید صاف‘‘ (یعنی زرد نہ تھا) صحیح مسلم،،بَابُ أَوْقَاتِ الصَّلَوَاتِ الْخَمْسِ ، رقم:۶۱۳

اور حضرت انس رضی اللہ عنہ   کی روایت میں ہے :’’ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم    نمازِ عصر پڑھتے تھے، اور آفتاب ہوتا تھا بلند۔‘‘(یعنی روشن بغیر زردی کے) (متفق علیہ)(صحیح البخاری،بَابُ وَقْتِ العَصْرِ،رقم:۵۵۰، صحیح مسلم،،بَابُ أَوْقَاتِ الصَّلَوَاتِ الْخَمْسِ ، رقم:۶۲۱)اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ   کی روایت میں ہے۔ انھوں نے اپنے عُمَّال کو لکھا تھا۔ ’’اور پڑھو نماز عصر ایسے وقت میں کہ سورج بلند سفید(اور) صاف روشن ہو بقدر اس چیز کے کہ طے کر چکے سوار دو فرسخ(چھ میل) یا تین فرسخ( نومیل) سورج ڈوبنے سے پہلے۔‘‘(موطأ مالک (لعبد الباقی)،کتاب  وُقُوتِ الصَّلَاۃِ،بَابُ وُقُوتِ الصَّلَاۃِ ، رقم:۶)اور حدیث جبریل میں ہے :’’دوسرے روز عصر کی نمازپڑھائی جب ہو گیاسایہ (ہرچیز کا) دوگنا ا س سے۔‘‘

اس بناء پر امام شافعی رحمہ اللہ  وغیرہ نے کہا ہے کہ عصر کا اختیاری وقت دو مثل تک اور اصحاب اعذار اور حاجات وضروریات کے لیے غروبِ شمس تک ہے اور امام احمد وغیرہ کا کہنا ہے، کہ ایک مثل سے لے کر اصفرارِ شمس (سورج کے زرد ہونے) تک ہے۔

الحاصل یہ ہے کہ عصر کا وقت ایک مثل سے شروع ہو کر دو مثل یا سورج کے زردہونے تک ہے۔ اس معیار کو سامنے رکھ کر گھڑیوں کے اوقات کا تعین آسانی سے ہو سکتا ہے۔ لہٰذا شریعت کی روشنی میں مسائل کا حل افہام و تفہیم سے ہونا چاہیے ۔ باہمی اختلافات اور ضد بازی سے مسائل سلجھانے کے بجائے الجھاؤ کا شکار ہو جاتے ہیں، جو سراسر خسارے کا سودا ہے۔ اﷲ رب العزت جملہ مسلمانوں میں الفت و محبت پیدا فرمائے۔آمین!

  ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ حافظ ثناء اللہ مدنی

کتاب الصلوٰۃ:صفحہ:286

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ