سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(286) سخت گرمی میں ظہر کی نماز ٹھنڈے وقت میں پڑھنا

  • 24296
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-03
  • مشاہدات : 926

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

سخت گرمی میں ظہر کی نماز ٹھنڈے وقت میں پڑھنے کا حکم ہے۔ ٹھنڈے وقت سے کیا مراد ہے؟ مثلاً اگر نماز ظہر کا وقت ۱۲ بج کر ۱۰ منٹ پر شروع ہو رہا ہے اور ساڑھے بارہ بجے جماعت کا وقت ہے (عام دنوں کے مطابق) اگر اسے ٹھنڈے وقت پڑھیں تو کیا وقت ہونا چاہیے؟ وضاحت سے جواب دیں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

ظہر کا وقت آفتاب کے ڈھلنے سے لے کر ایک مثل (ہر چیز کا سایہ اس کے برابر ہو جانے) تک ہے۔ دوپہر کا سایہ مثل میں داخل نہیں۔ ’’صحیحین‘‘ میں حدیث ہے:

’ اِذَا اشتَدَّ الحَرَّ فَأَبِردُوا بِالصَّلَاةِ ‘صحیح البخاری،بَابُ الإِبْرَادِ بِالظُّهْرِ فِی شِدَّةِ الحَرِّ،رقم:۵۳۳، صحیح مسلم،بَابُ اسْتِحْبَابِ الْإِبْرَادِ بِالظُّهْرِ فِی شِدَّةِ الْحَرِّ …الخ،رقم:۶۱۵

’’جب سخت گرمی ہو تو نماز ظہر ٹھنڈے وقت میں پڑھو۔‘‘

ٹھنڈے وقت سے مراد یہ ہے، کہ شدت کی گرمی میںسورج ڈھلتے ہی فوراً نہ پڑھو۔ تھوڑی دیر کر لو۔ اس کا مفہوم قطعاً یہ نہیں کہ چار بجا دو۔ سنن ابی دائود کی روایت میںموسم گرما اور سرما کے وقت کی یوں تصریح ہے۔ عبداللہ بن مسعودؓ سے روایت ہے، کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم   کی نماز کا اندازہ موسمِ گرما میں تین قدم سے لے کر پانچ قدم تک تھا، اور جاڑوں کے موسم میں پانچ قدم سے لے کر سات قدم تک تھا۔ علامہ البانی رحمہ اللہ  نے حدیث ہذا کو صحیح کہا ہے۔

  ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ حافظ ثناء اللہ مدنی

کتاب الصلوٰۃ:صفحہ:283

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ