سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(282) ظہر سے پہلے زوال کا وقت کتنا ہو گا ؟

  • 24292
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-03
  • مشاہدات : 1155

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ظہر سے پہلے زوال کا وقت کتنا ہو گا یعنی ممنوع وقت۔ کسی کیلنڈر میں تو ۴۵ منٹ کا وقفہ لکھا ہوتا ہے جو زیادہ لگتا ہے اور بعض میں ۱۵۔۲۰ منٹ ہوتا ہے۔ آپ بتائیں کہ صحیح کیا ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اہلِ علم نے زوال معلوم کرنے کا ضابطہ یوںبیان کیا ہے، کہ ایک سیدھی لکڑی کھڑی کی جائے۔ پس جب سایہ گھٹتے گھٹتے انتہاء کو پہنچے۔ یعنی اس کے بعد نہ گھٹے۔ بلکہ بڑھنا شروع ہوجائے، تو یہ سایہ اصل ہے اور جس سایہ پر سورج ڈھلا ہے، اس کا کوئی اعتبار نہیں۔ صرف وہی سایہ معتبر ہے، جو اس کے سوا ہے۔(شرح رسالہ ابن ابی زید)

اور ’’شامی‘‘ میں ہے، کہ اگر کوئی لکڑی لے کر زمین میں زوال سے پہلے گاڑ دے اور سایہ کا انتظار کرے، جب تک وہ لکڑی کی طرف گھٹتا رہے، اور جب انتہاء تک پہنچ کر پھر بڑھنا شروع ہو، تو اس سایہ کو جو بڑھنے سے پہلے ہے ، یاد رکھیں یہی سایہ اصلی ہے اور جب سایہ اصلی سائے کے دو مثل یا ایک مثل ہو جائے تو ظہر کا وقت ختم اور عصر کا وقت شروع ہو جاتا ہے اور صاحب ’’العون‘‘ فرماتے ہیں:

’ ضَابِطُ مَا یُعرَفُ بِهٖ زَوَالُ کُلِّ بَلَدٍ، اَن یُدَقَّ وَ تَدٌ فِی حَائِطٍ، اَو خَشبَةٍ موََازِیًا لِلقَطبِ یَمَانِیًا، اَو شِمَالِیًا ، فَیَنظَرَ لِظِلِّهٗ۔ فَمَهمَا سَادَاهُ فَذَلِكَ وَسطُ النَّهَارِ۔ فَاِذَا مَالَ اِلَی المَشرِقِ مَیلًا تَامًا فَذَلِكَ الزَّوَالُ، وَ اَوَّلُ وَقتِ الظُّهرِ ‘ (۱۵۶/۱)

حدیث میں ہے:

’’فَإِذَا اَقبَلَ الفَییُٔ فَصَلِّ۔‘‘( صحیح مسلم،بَابُ إِسْلَامِ عَمْرِو بْنِ عَبَسَۃَ،رقم:۸۳۲)یعنی سایہ جب بجانبِ مشرق ظاہر ہو جائے، تو نماز پڑھ لواور دوسری روایت میں ہے:’حَتّٰی تَمِیلَ الشَّمسُ‘صحیح مسلم،بَابُ الْأَوْقَاتِ الَّتِی نُهِیَ عَنِ الصَّلَاةِ فِیهَا،رقم:۸۳۱

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ  فرماتے ہیں:

’ وَ وَقتُ الاِستَوَاءِ المَذکُورِ، وَاِن کَانَ ضَیِّقًا لَا یَسَعُ صَلٰوةً اِلَّا اَنَّهٗ یَسَعُ التَحرِیمَةَ۔ فَیَحرُمُ تَعَمُّدُ التَحرِیمِ فِیهِ ‘المرعاة :۵۳/۲

یعنی آسمان پر سورج کے برابر ہونے کا وقت اگرچہ تھوڑا اور نماز کے لیے ناکافی ہے، لیکن حرمت کے اعتبار سے اس میں وسعت ہے۔ وہ اس طرح کہ حرام کردہ شے کا اس میں قصد کرنا حرام ہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ حُرمت کے چند لمحات ہیں، جو سورج چند سیکنڈ میں طے کر لیتا ہے۔ اس کا صحیح اندازہ کرنا مشکل امر ہے۔ البتہ احتیاطاً چار پانچ منٹ انتظار کر لیا جائے۔ حضرت محدث روپڑی رحمہ اللہ  بھی بے حد تقلیل سے تعبیر فرمایا کرتے تھے۔ باقی سوال میں ذکر کردہ تحدید غیر متصور ہے۔

  ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ حافظ ثناء اللہ مدنی

کتاب الصلوٰۃ:صفحہ:280

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ