السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
زید اس بات کا قائل و فاعل ہے کہ جمعۃ المبارک کی ایک اذان سنتِ نبوی ، سنتِ صحابہ( رضی اللہ عنہم ) اور شرعی اذان ہے۔ دوسری(یعنی پہلی) اذان حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی ایجاد ہے۔ اگر کوئی دوسری اذانِ شرعی جمعۃ المبارک کے دن پڑھے تو گنجائش ہے مگر اس صورت میں کہ اذان بازار یا مسجد کے دروازے پر ہو۔ تاکہ کم از کم حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی اذان پر عمل ہو سکے۔ بکر اس بات کا قائل ہے کہ دو اذانیں جمعۃ المبارک کو پڑھنی مسجد میں شرعی اذانیں ہیں۔ مسجد سے خارج حصہ کی کوئی ضرورت نہیں۔ ایک اذان پڑھنے والے کو بُرا اور ایسا ویسا کہتا ہے۔ ان دونوں میں سے کس کا قول و فعل کتاب و سنت کی روشنی میں صحیح ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
صورتِ مسئولہ میں کتاب و سنت کی روشنی میں زید کا قول ہی بوجوہ صحیح ہے۔ بکر کا نہیں۔
اوّل: اس لیے کہ اس حقیقت میں کسی بھی اہلِ علم کو اختلاف نہیں کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی خلافت کے اوّل عہد تک صرف ایک ہی اذان پڑھی جاتی تھی۔ وہ بھی اس وقت پڑھی جاتی تھی جب خطیب خطبۂ جمعہ پڑھنے کے لیے منبر پر تشریف فرما ہو جاتا تھا۔ پھر جب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے عہد میں مدینہ منورہ کی آبادی میں اضافہ ہوگیا اور نو آباد محلہ جات مسجدِ نبوی سے دُور دُور آباد ہو گئے تھے اور جمعہ کی اذان ان کو سنائی نہ دیتی تھی ۔ درانحالیکہ مدینہ منورہ کی آبادی میں روز افزوںاضافہ کے باوجود جمعہ صرف مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہی میں پڑھا جاتا تھا۔ اس طرح بعض حضرات مسجدِ نبوی سے دُور آباد ہونے کی وجہ سے جمعہ میں شرکت سے محروم رہنے لگے کہ ان کے آتے آتے ہی جمعہ کی نماز ختم ہو جاتی تھی۔اس ضرورت کے پیشِ نظر خلیفۂ راشد حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اجتہاد سے کام لیتے ہوئے مقام ’’زورائ‘‘ پر پہلی اذان کہلوانے کا حکم صادر فرمایا: اور یہ مقام مسجدِ نبوی سے تقریباً اڑھائی سو میٹر کے فاصلہ پر واقع تھا۔یہ حقیقت حدیثِ اذانِ عثمانی کے مختلف الفاظ کو یکجا کرلینے کے بعد پوری طرح کھل کر از خود سامنے آجاتی ہے۔وہ حدیث مع تخریج الفاظ مختلفہ باحوالہ یہ ہے:
’قَالَ الاِمَامُ الزُّهرِیُّ رَحِمَهُ اللّٰهُ تَعَالٰی: أَخبَرَنِی السَّائِبُ بنُ یَزِیدَ، اَنَّ الأَذَانَ (الَّذِی ذَکَرَهُ اللّٰهُ فِی القُراٰنِ) ، کَانَ اَوَّلُهٗ حِینَ یَجلِسُ الاِمَامُ عَلَی المِنبَرِ،(إِذَا قَامَتِ الصَّلٰوةُ) یَومَ الجُمُعَةِ،(عَلٰی بَابِ المَسجِدِ) فِی عَهدِ النَّبِیِّﷺ وَ اَبِی بَکرٍ وَ عُمرَ۔ فَلَمَّا کَانَ خِلَافَةُ عُثمَانَ، وَ کَثُرَ النَّاسُ، ( وَ تَبَاعَدَتِ المَنَازِلُ)، أَمَرَ عُثمَانُ یَومَ الجُمُعَةِ بِالأَذَانِ الثَّالِثِ۔ وَ فِی رِوَایَةٍ: الاَوَّلِ۔ وَفِی اُخرٰی: بِأَذَانٍ ثَانٍ ۔(عَلٰی دَارٍ)، (لَهٗ ) فِی السُّوقِ۔ یُقَالُ لَهَا: الزَّورَاءُ) فَأُذِّنَ بِهٖ عَلَی الزَّورَاءِ ۔ (قَبلَ خُرُوجِهٖ لِیَعلَمَ النَّاسُ اَنَّ الجُمُعَةَ قَد حَضَرَت ) فَثَبَتَ الأمرُ عَلٰی ذَالِكَ ۔ (فَلَم یَعِب النَّاسُ ذَلِكَ عَلَیهِ، وَ قَدعَابُوا عَلَیهِ حِینَ اَتَمَّ الصَّلٰوةَ بِمِنًی ۔) أخرجه أبوداؤد فی سننه مع عون المعبود:ج:۱، باب النداء یوم الجمعة ،ص:۴۲۳، و السیاق له والبخاری:۱۲۴/۱، ۱۲۵، والنسائی:۱۶۸/۱، والترمذی مع تحفة الأحوذی:۱۳۹۸/۱، و صححه، و ابن ماجه جلد اوّل، والشافعی فی الامّ:۱۷۳/۱۔
والزیادة الأولیٰ لابن اسحاق بن راهویه، وابن خزیمة، کذا فی الفتح الباری: (۳۴۶/۲)، و نیل الأوطار (۲۹۸/۳، و عون المعبود:۱/۱۴۲۳) ، والزیادة الثانیة لابن الجارود والبیهقی، کذا فی ’’الأجوبة النافعة‘‘ للأَلبانی،ص:۸۔ والزیادة الثالثة لابی داؤد مع العون:۴۲۴/۱، والطبرانی کذا فی الاجوبة النافعة ،ص:۸، والرابعة لابن عبد، وابن المنذر، وابن مردویه، ذکرها العینی فی عمدة القاري:۳/۲۳۳، دون عزو، الأجوبة النافعة،ص:۸۔ والخامسة لابن خزیمة، وابن ماجهہ۔ فتح الباری:۲/۳۲۷۔والسادسة للطبرانی، فتح الباری:۳۲۷/۲۔ وتحفة الاحوذی: ۱/۳۶۸، والسابعة ایضاً للطبرانی۔ فتح الباری:۲/۳۲۷۔ والثامنة ، وهی الاخیرة لابن حمید، وابن المنذر، و ابن مردویه، کذا فی الاجوبة النافعة،ص:۸۔
یعنی حضرت امام زہری رحمہ اللہ فرماتے ہیں: کہ مجھے حضرت سائب بن یزید رضی اللہ عنہ نے خبر دی ہے۔ انھوں نے فرمایا : جمعہ کی وہ پہلی اذان، جس کا ذکر اﷲ تعالیٰ نے قرآن مجید میں کیا ہے۔ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں اور ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہما کے زمانہ میں جمعہ کے دن مسجد نبوی کے دروازہ پر اس وقت ہوا کرتی تھی، جب امام (خطبہ کے لیے) منبر پر تشریف فرما ہوتا تھا۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے دَورِ خلافت میں جب لوگ بہت ہو گئے اور مدینہ کی آبادی دُور دُور تک پھیل گئی، تو انھوں نے جمعہ کے دن تیسری اذان، اور ایک دوسری روایت کے مطابق پہلی اذان، اور تیسری روایت کے مطابق دوسری اذان، اپنے اس مکان پر پڑھنے کا حکم صادر فرمایا جسے مقامِ ’’زورائ‘‘ کہتے ہیں، جو کہ مدینہ منورہ کے ایک بازار میں واقع ہے ۔ پس خطبہ کے لیے آپ کی آمد سے پہلے یہ اذان مقامِ ’’زورائ‘‘ پر اس لیے دی جاتی تھی تاکہ لوگوں کو یہ پتہ چل جائے کہ جمعہ کا وقت ہو چکا ہے۔ پھر یہی دستورقائم ہو گیا۔ لوگوں نے اس اذان کے اضافہ کے متعلق حضرت عثمان( رضی اللہ عنہم ) پر کوئی عیب نہیں لگایا۔ حالانکہ آپ نے جب حج کے موقع پر منیٰ کے میدان میں نمازِ قصر کی بجائے پوری نماز پڑھی تو لوگوں نے ان پر نکیر کی تھی۔
اس حدیث سے صاف واضح ہوا کہ جناب رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہدِ رسالت میں اور حضرات شیخین رضی اللہ عنہما کے عہدِ خلافت میں اور پھر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی خلافت کے اوّلین زمانہ میں جمعہ کے دن صرف ایک ہی اذان ہوا کرتی تھی، اور وہ اس وقت ہوتی تھی، جب امام خطبہ کے لیے منبر پر رونق افروز ہو جاتا تھا۔ یہی اذان شرعی اذان ہے۔
ثانیاً:اس لیے بھی زید ہی کا قول صحیح ہے، کہ اگر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اپنی اس اذان کو شرعی اذان تصور فرماتے، تو مسجد نبوی سے تقریباً اڑھائی سو میٹر دُور فاصلہ پر یہ اذان نہ کہلواتے بلکہ مسجد نبوی کے اسی مقام پر اس کا اہتمام فرماتے جہاں رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما کے عہد میںہوا کرتی تھی۔ رہی یہ بات کہ مقام ’’زورائ‘‘ کہاں اور مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے کتنے فاصلہ پر واقع ہے تو سنیے!
حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ صحیح بخاری کی شرح میں اس حدیث کی تفسیر میں ’’الزورائ‘‘ کی تحقیق کرتے ہوئے رقمطراز ہیں۔
’ (اَلزَّورَآء) بِفَتحِ الزَّای، وَ سَکُونِ الوَاوِ،وَبَعدَهَا رَآءٌ مَمدُودَةٌ : وَهِی سُوقٌ بِالمَدِینَةِ۔ ‘
علامہ ابن بطال کو اصرار ہے کہ ’’زورائ‘‘ ایک بڑے پتھر کا نام ہے، جو کہ مسجد نبوی کے دروازے کے قریب واقع تھا مگر ان کا یہ موقف درست نہیں۔ جیسا کہ امام بخاری،ابن ماجہ، ابن خزیمہ اور طبرانی رحمته الله عليهما وغیرہ کی تصریحات سے واضح ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ’’زورائ‘‘ مدینہ کے بازار میں ایک مقام کا نام ہے۔
’ قَالَ اَبُو عَبدِ اللّٰهِ (الاِمَامُ البُخارِیُّ) الزّورائ، موضع بالسُّوقِ بِالمَدِینَةِ‘صحیح البخاری،بَابُ الأَذَانِ یَوْمَ الجُمُعَةِ،رقم:۹۱۲
اور یہی بات صحیح ہے۔ چنانچہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ حضرت امام بخاری کی تائیدفرماتے ہوئے لکھتے ہیں:
’ وَ مَا فُسِّرَ بِهِ الزوراء، هو المعتمد ۔ وَ جَزَمَ ابنُ بَطَّالٍ بِأَنَّهٗ حَجَرٌ کَبِیرٌ عِندَ بابِ المَسجِدِ۔ وَ فِیهِ نَظَرٌلما فی روایة ابن إسحاق، عن الزهری، عند ابن خزیمة، وابن ماجة بلفظ زاد الندِاءَ الثالث علی دارٍ فِی السُّوقِ یُقَالُ لَهَا: ’الزَّورَائ‘۔ و فی روایة عند ’الطبرانی‘ فَأَمَرَ بالنِّدَاءِ الاوّلِ عَلیٰ دَارٍ لَهٗ۔ یُقَالُ لَهَا: ’الزَّورَائُ، فَکَانَ یُؤَذَّنُ لَهٗ عَلَیهَا‘فتح الباری : ۳۲۷/۲
اس تصریح سے معلوم ہوا کہ ’’زَورَائ‘‘ کسی بڑے پتھر کا نام نہیں، بلکہ مدینہ منورہ کے ایک بازار کا نام ہے۔ جیسا کہ صحیح بخاری ، صحیح ابن خزیمہ، سنن ابن ماجہ اور طبرانی کی روایات میں اس کی تصریح موجود ہے۔
مشہور شیخ محمود محمد خطاب السبکی رحمہ اللہ نے بھی سنن أبی داؤد کی شرح ’’المنھل العذب المورود‘‘ میں یہی کچھ لکھا ہے۔(ملاحظہ ہو:۱/۲۴۵)
الشیخ عطیہ محمد سالم رحمته الله عليه رقم فرماتے ہیں:
’ وَ أَمَّا مَکَانُ هٰذَا الأَذَانِ، وَ زَمَانُهٗ۔ فَاِنَّ المَکَانَ قَد جَاءَ النَّصُّ، أَنَّهٗ کَانَ عَلَی الزَّورَاء و قَد کَثُرَ الکَلَامُ فِی تَحدِیدِ الزورائ، مَعَ اِتَّفَاقِهِم أَنَّهَا مَکَانٌ بِالسُّوقِ، وَهٰذَا یَتَّفِقُ مَعَ الغَرَضِ مِن مَشرُوعِیَّتِهٖ لِتَنبِیهِ أَهلِ السُّوقِ بِوَقتِ الجُمُعَةِ لِلسَّعیِ إِلَیهَا۔ أَمَّا الزُّورَاء بِعَینِهَا ، فَقَالَ عُلَمََآءُ تَارِیخِ المَدِینَةِ: أَنَّهٗ اسمٌ لِلسُّوقِ نَفسِهَا وَقِیلَ: مَکَانٌ مِنهَا مُرتَفَعٌ کَانَ عِندَ أَحجَارِ الزَّیتِ، وَ عِندَ قَبرِ مَالِكِ بنِ سَنَانٍ ، وَعِندَ سُوقِ العَبَاءة۔ وَالشَّیئُ الثَّابِتُ الَّذِی لَم یَقبَلِ التَّغیُّر۔ هُوَ قَبرُ مَالِكِ بنِ سِنَانٍ ، لٰکِن یَقُولُونَ عِندَهٗ: وَ لَیسَ فِی مَکَانِهٖ۔ وَ قَد بَدَا لِی أَنَّ الزُّورَاء،:هُوَ مَکَانُ المَسجِد الَّذِی یُوجَدُ الآنَ بِالسُّوقِ فِی مُقَابَلَةِ بَابِ المِصرِی، المعروف بِمَسجِدِ فَاطِمَة‘تتمه تفسیر أضواء البیان:۲۳۲/۸۔۲۳۳
’’یہ بات منصوص ہے کہ مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے دور پڑنے والی آبادی کو جمعہ کے وقت کی اطلاع دینے کے لیے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے مقام ’’زورائ‘‘ پر پہلی اذان کہلوانی شروع کردی تھی۔ رہی یہ بات: کہ مقام ’’زورائ‘‘ کہاں اور مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے کتنے فاصلے پر تھا۔ سو واضح ہو کہ تاریخ مدینہ کے علماء کی تحقیق کے مطابق ’’زورائ‘‘ دراصل ایک بازار کا نام ہے۔ ایک دوسرا قول یہ بھی ہے کہ یہ مقام مدینہ منورہ کے بازار کی ایک اونچی گھاٹی پر ’’احجار زیت‘‘ کے قریب ہے۔یہ بھی ہے کہ یہ مقام حضرت مالک بن سنان رضی اللہ عنہ کی قبر کے پاس واقع ہے اور ’’سوق عباء ۃ‘‘ کے نزدیک پڑتا ہے۔ میری رائے میں مقام ’’زورائ‘‘ وہاں تھا جہاں اب ’’باب المصری‘‘ کے سامنے بازار میں مسجد ’’فاطمہ‘‘ رضی اللہ عنہا واقع ہے۔ بہر حال میرے نزدیک یہی امر راجح ہے کہ اذانِ عثمانی اسی مقام پر کہی جاتی تھی، اور یہ سوق مدینہ کے وسط میں واقع ہے، جو کہ مسجد نبوی سے تقریباً دو صد پچاس میٹر (یعنی ایک فرلانگ اٹھاون گز اور ایک فٹ) دُور ہے۔
پھر مفصل بحث کے بعد فیصلہ کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:
’ وَ بِهٰذَا تَرَجُّحُ عِندِی، أَنَّ مَوضِعَ أَذَانِ عُثمَانَ رَضِیَ اللّٰهُ عَنهُ کَانَ بِذٰلِكَ المَکَانِ، وَ أَنَّهُ المُتَوَسِّطَ بِسُوقِ المَدِینَةِ، وَ تُقَدَّرُ مَسَافَتُهٗ عَنِ المَسجِدِ النَّبَوِیِّ بِحَوَالَی مِأَتَینِ وَ خَمسِینَ مِترًا تَقرِیبًا‘تفسیر أضواء البیان،سورة الجمعة،:۸۲۳۲/۸
اس تحقیق سے ثابت ہوا کہ مقام ’’زورائ‘‘ مسجد نبوی سے تقریباً اڑھائی صد میٹر دُور تھا اور اتنے فاصلے پر کہی جانے والی اذان کو شرعی یعنی مسنون اذان قرار دینا کچھ مناسب معلوم نہیں ہوتا۔ (فافہم)
ثالثًا: اس لیے بھی کہ چونکہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے عہدِ خلافت میں مدینہ معظمہ کی آبادی میں خاطر خواہ اضافہ ہو گیا، اور دُور دُور تک محلے آباد ہو گئے تھے اور خطبہ جمعہ والی اذان مسجدِ نبوی سے دور محلہ جات میں سنائی نہیں دیتی تھی اور آتے آتے نمازِ جمعہ ختم ہو جاتی تھی۔ لہٰذا لوگوں کی اس مجبوری کے پیشِ نظر خلیفہ راشد سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے اجتہاد کرکے اس پہلی اذان کی طَرح ڈالی تھی۔ یعنی بالفاظِ دیگر اذانِ عثمانی ایک مقامی ضرورت سے عہدہ برآ ہونے کے لیے شروع کی گئی تھی۔ جیسا کہ مذکورۃ الصدر حدیث کے الفاظ ’ فَلمَّا کَثُرَ النَّاسُ وَ تَبَاعَدَتِ المَنَازِلُ‘ اس مقامی ضرورت پر دلالت کر رہے ہیں۔ شارحینِ حدیث نے بھی اس ضرورت کی نشاندہی کی ہے۔ علامہ الشیخ محمود محمد خطاب رقم فرماتے ہیں:
’ فَإِنَّ الغَرَضَ الَّذِی زَادَ عُثمَانُ الأَذَانَ لِأَجلِهٖ ، وَهُوَ ، أَنَّهٗ لَمَّا کَثُرَ النَّاسُ وَانتَشَرَتِ المَنَازِلُ، کَانَ مَن عِندَ الزُّورَائِ ، لَا یَسمَعُ الأَذَانَ الَّذِی عِندَ المَسجِدِ، زَادَ أَذَانًا ثَانِیًا (خَارِجَ المَسجِدِ) عَلَی ’الزَّورَاءِ‘ لإِسمَاعِهِم، فَاِذَا اجتَمَعَ النَّاسُ فِی المَسجِدِ، وَ جَلَسَ الخَطِیبُ عَلَی المِنبَرِ، أَذَّنَ المُؤَذِّنُ ثَانِیًا خَارِجَ المَسجِدِ عَلَی البَابِ، أَوعَلَی السَّطحِ ، کَمَا کَانَ فِی زَمَنِ النَّبِیِّ ﷺ، وَ أَبِی بَکرٍ، وَ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰهُ عَنْهُ۔ وَهٰذَا الغَرَضُ الَّذِی اَحدَثَ الأَذَانَ الثَّانِی مِن أَجلِهٖ فِی زَمَنِ عُثمَانَ رَضِیَ اللّٰهُ عَنْه لَیسَ مَوجُودًا فِی زَمَانِنَا۔ فَاِنَّنَا لَم نَرَی أَذَانًا یُفعَلُ بَعِیدًا عَنِ المَسجِدِ‘المنهل العذب المورود شرح سنن أبی داؤد:۶۲۴۶/۶
یعنی جس غرض کے لیے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے یہ مرُوّجہ پہلی اذان کہلوانی شروع کی تھی۔ وہ یہ تھی کہ ان کے عہدِ خلافت میں مدینہ منورہ کی آبادی میں خاصا اضافہ ہو گیا تھا اور رہائشی مکانات دُور دُور تک پھیل گئے تھے اور مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے دور ہونے کی وجہ سے مقامِ ’’زورائ‘‘ سے پرے بسنے والوں کو خطبہ والی اذان سنائی نہ دیتی تھی۔ اس لیے بامر مجبوری ان لوگوں کو جمعہ کے وقت سے آگاہ کرنے کے لیے مقامِ ’’زورائ‘‘ پر آپ نے اس اذان کو رواج دیا۔ چونکہ اب یہ غرض موجود نہیں اس لیے ہم اس کی ضرورت محسوس نہیں کرتے۔‘‘
علامہ حافظ احمد محمد شاکر المصری رحمہ اللہ ارقام فرماتے ہیں:
’ لِأَنَّ المَدِینَةَ لَم یَکُن بِهَا إِلَّا المَسجِدَ النَّبِوِیّ، وَ کَانَ النَّاسُ کُلُّهُم یُجَمِّعُونَ فِیهِ، وَ کَثُرُوا عَن أَن یَسمَعُوا الأَذَانَ عِندَ بَابِ المَسجِدِ ۔ فَزَادَ عُثمَانُ الأَذَانَ الأَوَّلَ، لِیَعلَمَ مَن بِالسُّوقِ ، وَ مَن حَولَهٗ حُضُورَ الصَّلٰوة ‘الأَجوِبَةُ النافعة،ص:۹
’’اذانِ عثمانی کا پس منظر یہ ہے کہ مدینہ منورہ میں اس دور میں مسجدِ نبوی کے علاوہ اور کوئی مسجد جمعہ نہ تھی، اور تمام لوگ اسی میںجمعہ پڑھتے تھے ، اور وہ اتنی زیادہ تعداد میں تھے کہ جمعہ کے خطبہ کے آغاز میں مسجد کے دروازے پر پڑھی جانے والی اذان سن نہ سکتے تھے۔ لہٰذا امیر المومنین حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو مروّجہ پہلی اذان اس لیے کہلوانی پڑی، تاکہ بازار میں اور اس کے گردو نواح میںبسنے والوں کو جمعہ کے وقت کا علم ہو سکے۔
اور ’’فتح الباری‘‘(۳۲۷/۲) میں بھی یہی وجہ مرقوم ہے۔
محدَّث عصر حاضر علامہ البانی رحمہ اللہ رقمطراز ہیں:
’ لَا نَرَی الاِقتِدَاءَ بِمَا فَعَلَهُ عُثمَانُ عَلَی الإِطلَاقِ ، وَ دُونَ قَیدٍ ۔ فَقَد عَلِمنَا مِمَّا تَقَدَّمَ أَنَّهٗ إِنَّمَا زَادَ الأَذَانَ الأَوَّلَ لِعِلَّةٍ مَعقُولَةٍ ، وَهِیَ کَثرَةُ النَّاسِ وَ تَبَاعُدُ مَنَازِلِهِم عَنِ المَسجِدِ النَّبَوِیِّ فَمَن صَرَفَ النَّظرَ عَن هٰذِهِ العِلَّةِ، وَ تَمَسَّكَ بِأَذَانِ عُثمَانَ مُطلَقًا، لَا یَکُونُ مُقتَدِیًا بِهٖ رَضِیَ اللّٰهُ عَنهُ ، بَل هُوَ مُخَالِفٌ لَهٗ ، حَیثُ لَم یَنظُر بِعَینِ الإِعتِبَارِ اِلٰی تِلكَ العِلَّةِ الَّتِی لَو لَاهَا لَمَا کَانَ لِعُثمَانَ أَن یَزِیدَ عَلٰی سُنَّتِهٖ عَلَیهِ السَّلَام وَ سُنَّةِ الخَلَیفَتَینِ مِن بَعدِهٖ‘ الأجوبةُ النافعة،ص:۸
’’ہمارے نزدیک حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا یہ عمل(اذان عثمانی) علی الإطلاق پیروی کے قابل نہیں جب تک وہ معقول علَّت اور سبب موجود نہ ہو جس کی وجہ سے انھوں نے اس اذان کو رواج دیا اور وہ علَّت اور سبب یہ تھا کہ مدینہ منورہ کی آبادی کا ان کے عہد میں بہت بڑھ جانا اور مسجد نبوی سے لوگوں کے گھروں کا دُور پڑنا۔ لہٰذا جو شخص اس علَّت اور سبب کا لحاظ کیے بغیر اذانِ عثمانی کو اختیار کرنے پر اصرار کررہا ہے، وہ ایسا کرکے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی پیروی نہیں کر رہا، بلکہ وہ درحقیقت اس کی مخالفت پر تلا ہوا ہے۔ کیونکہ اس نے اذانِ عثمانی کی اس علَّت اور سبب کا اعتبار نہیں کیا، جس کی وجہ سے آپ کو یہ اذان کہلوانی پڑی تھی۔اگر یہ علَّت معقولہ آپ کے پیشِ نگاہ نہ ہوتی تو آپ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی سُنَّت اور حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما کی سُنَّت پر اس اذان کااضافہ ہر گز نہ کرتے۔‘‘
محدثِ ہند مولانا عبید اﷲ رحمانی رحمہ اللہ نے بھی اسی رائے کو اختیار فرمایا ہے۔ملاحظہ ہو!(مِرعاۃ المفاتیح:۳۰۸/۳)
اس تحقیق سے معلوم ہوا کہ امیر المومنین حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے ایک مقامی اور ہنگامی ضرورت(لوگوں کی کثرت اور آبادی کا دور دور تک پھیل جانے) سے عہدہ برآ ہونے کے لیے اپنے اجتہاد سے اس اذان کو رواج دیا تھا، اور بس! لہٰذا زید کو بُرا بَھلا کہنا درست نہیں۔
رابعًا:اس لیے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ تیسرے بڑے صحابی( رضی اللہ عنہ ) اور خلیفہ راشد تھے اور آپ نے ایک مقامی اور ہنگامی ضرورت سے عہدہ برآ ہونے کے لیے اپنے اجتہاد سے یہ اذان کہلوانی شروع کی تھی۔ یہ ضرورت معقول بھی تھی، اور قابلِ اعتناء بھی۔ تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ خلیفۂ چہارم سیدنا علی رضی اللہ عنہ ، حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اللہ عنہما ایسے بزرگ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور امام حسن بصری اور امام زہری; جیسے فقہاء تابعین رحمہ اللہ نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی اس اذان کو مسنون اور شرعی اذان تسلیم نہیں کیا تھا۔
شیخ البانی فرماتے ہیں :
’ وَکَأَنَّهٗ لِذَالِكَ کَانَ عَلِیُّ بنُ أَبِی طَالِبٍ رَضِیَ اللّٰهُ عَنْه وَهُوَ بِالکُوفَةِ، یَقتَصِرُ عَلَی السُّنَّةِ، وَ لَا یَأخُذُ بِزِیَادَةِ عُثمَانَ، کَمَا فِی القرطبی(۱۰۰/۱۸) ‘التعلیق علی سنن الترمذی ،باب ما جاء فی أذان الجمعة: ۳۹۳/۳
’’ سیدنا علی رضی اللہ عنہ اپنے ’’دارالخلافہ‘‘ کوفہ میں خطبہ کے شروع میں پڑھی جانے والی مسنون اذان پر اکتفا فرماتے تھے، اور اذانِ عثمانی پر عمل نہیں کرتے تھے۔ جیسا کہ قرطبی میں ہے۔‘‘
’ حَدَّثَنَا شَبَابَةُ قَالَ: حَدَّثَنَا هُشَیمُ بنَ الغَازِ، عَن نَافِعٍ، عَنِ ابنِ عُمَرَ، قَالَ: الأَذَانُ الاَوَّلُ یَومَ الجُمُعَةِ بِدعَةٌ ‘مصنف ابن أبی شیبة، باب الأذان یوم الجمعة: ۱۴۰/۲،رقم:۵۴۳۷
’’ حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے تھے کہ جمعہ کی پہلی اذان بدعت ہے۔(وَفِی رِوَایَةٍ قَالَ ابنُ عُمَرَ : اِنَّمَا کَانَ النَّبِیُّ ﷺ إِذَا صَعِدَ المِنبَرَ أَذَّنَ بِلَالٌ۔ فَاِذَا فَرَغَ النَّبِیُّ ﷺ مِن خُطبَتِهٖ، أَقَامَ الصَّلٰوةَ۔ وَ الأَذَانُ الاَوَّلُ بِدعَةٌ ‘ رَوَاَهُ أَبُو ظَاهِر المُخلِصُ فِی فوائدهٖ کذا فی الاجوبة النافعة للشیخ ناصر الدین الالبانی ؒ، ص:(۹، ۱۰)
یہ روایت فتح الباری(۳۲۷/۲) میں بھی موجود ہے۔
’’جب رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کا خطبہ پڑھنے کے لیے منبر پر تشریف فرما ہو جاتے تھے تو پھر حضرت بلال رضی اللہ عنہ اذان پڑھتے تھے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ سے فارغ ہوجاتے تو حضر ت بلال تکبیر کہتے اور پہلی اذان (اذانِ عثمانی) مسنون نہیں۔‘‘
’حَدَّثَنَا أَبُو بَکرٍ ، قَالَ : حَدَّثَنَا هُثَیمُ بنُ بَشِیرٍ ، عَنِ الحَسَنِ ، أَنَّهٗ قَالَ : النِّدَآءُ الاَوَّلُ یَومَ الجُمُعَةِ الَّذِی یَکُونُ عِندَ خُرُوجِ الاِمَامِ وَالَّذِی قَبلَ ذَالِكَ بِدعَةٌ مُحدَثٌ‘مصنف ابن أبی شیبة (۱۴۰/۲)، باب الاذان یوم الجمعة،رقم:۵۴۳۵
’’امام حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ درحقیقت جمعہ کی پہلی اذان وہ ہے جو خطبہ کے شروع میں اس وقت کہی جاتی ہے جب خطیب خطبہ کے لیے آجاتا ہے اور جو اذان اس خطبہ والی اذان سے پہلے کہی جاتی ہے وہ ایک نئی چیز ہے۔‘‘
’ حَدَّثَنَا ابنُ عُلَیَّةَ، عَن بُردٍ، عَن الزُّهرِیِّ، قَالَ: کَانَ الأَذَانُ عِندَ خُرُوجِ الاِمَامِ، فَاَحدَثَ اَمِیرُ المُومِنِینَ عثُماَنُ التَّاذِینَةَ الثَّالِثَةَ عَلَی الزَّورَاءِ، لِیَجتَمِعَ النَّاسُ‘مصنف ابن أبی شیبة ،باب الاذان یوم الجمعة،رقم:۵۴۴۰
’’امام زہری رحمہ اللہ تصریح فرماتے ہیں کہ پہلے پہل جمعہ کی پہلی اذان خطبہ کے شروع میں کہی جاتی تھی، جب خطیب خطبہ پڑھنے کے لیے آجاتا تھا۔ بعد ازاں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو جمع کرنے کے لیے مقام ’’زورائ‘‘ پر تیسری اذان(مروّجہ پہلی اذان) شروع کردی۔‘‘
مُفَسِّرقرطبی(محمد بن احمد انصاری، متوفی۶۷۱ھ) اپنی تفسیر میں امام الماوردی رحمہ اللہ سے نقل کرتے ہیں:
’عَنِ المَاوَردِیِّ ، فَاَمَّا الاَذَانُ الاَوَّلُ، فَمُحدَثٌ۔ فَعَلَهٗ عُثمَانُ لَیَتَأَهَّبَ النَّاسُ لِحُضُورِ الخُطبَةِ عِندَ اتّسَاعِ المَدِینَةِ، وَ کَثرَةِ أَهلِهَا ‘تفسیر قرطبی:۱۰۰/۱۸
’’ مروّجہ پہلی اذان شرعی اذان نہیں۔ جب مدینہ منورہ وسیع ہو گیا، اور اس کے باشندوں کی تعداد بڑھ گئی تو اس وقت خلیفہ راشد حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اس لیے اذان کہلوانی شروع کی تھی، تاکہ لوگ تیار ہو کر خطبہ شروع ہونے سے پہلے پہلے مسجد میں پہنچ سکیں۔‘‘
اس تفصیل پر ایک سرسری نظر ڈالنے کے بعد یہ حقیقت پوری طرح نکھر کر سامنے آجاتی ہے کہ گو خلیفۂ راشد امیر المومنین سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی موجودگی میں اس مروّجہ اذان کی طَرح ڈالی تھی۔ تاہم صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی حینِ حیات میں اس کو وہ قبولِ عام حاصل نہ ہو سکا، جو مسنون اذان کو شرعاً حاصل ہے۔ ورنہ حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اللہ عنہما جیسے اکابر صحابہ، امام حسن بصری اور امام المحدثین محمد بن مسلم بن شہاب زہری رحمہ اللہ ایسے فقہائِ حدیث اس اذان پر قولاً اور عملاً نکیر نہ کرتے۔ چنانچہ انہی وجوہ کے پیشِ نظر متعدد علماء محققین، ماہرینِ سنت اور شارحینِ حدیث نے خالص اتباعِ سنت کی نزاکتوں اور تقاضوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے ایک ہی اذان کو ترجیح دی ہے۔ جیسا کہ پہلے گزر چکا ہے۔ اس سلسلے میں مزید چند آراء پیش خدمت ہیں۔
فرماتے ہیں:
’ وَ اُحِبُّ أَن یَّکُونَ الأَذَانُ یَومَ الجُمُعَةِ، حِینَ یَدخُلُ الاِمَامُ المَسجِدَ، وَ یَجلِسُ عَلٰی مَوضِعِهِ الَّذِی یَخطُبُ عَلَیهِ خَشَبٍ ، أَو جَرِیدٍ، أَو مِنبَرٍ، أَو شَیئٍ مَرفُوعٍ لَهٗ، أَو الأَرضِ۔ فَإِذَا فَعَلَ أَخَذَ المُوذِّنُ فِی الأَذَانِ۔ فَإِذَا فَرَغَ قَامَ فَخَطَبَ، وَ لَا یَزِیدُ عَلَیهِ۔ وَ اُحِبُّ أَن یَؤُذِّنَ مُؤَذِّنٌ وَاحِدٌ‘کتاب الامّ للشافعي،بَاب وَقتُ الأَذَانِ لِلجُمُعَةِ،ج:۱،ص:۱۷۳
’’میں تو اس کوپسند کرتا ہوں کہ جب خطیب خطبہ پڑھنے کے لیے تیار ہو کر منبریا چبوترہ وغیرہ پر بیٹھ جائے، تو اس وقت مؤذن اذان پڑھے۔ جب اذان پوری ہو جائے، تو اذان اور خطبہ کے درمیان کسی وقفہ کے بغیر فوراً خطیب خطبہ شروع کردے، اور مجھے مؤذن بھی ایک ہی پسند ہے۔ یعنی ایک سے زائدمؤذنوں کا ایک ساتھ اذان پڑھنا مجھے پسند نہیں۔
مزید لکھتے ہیں:
’ وَقَد کَانَ عَطَاءٌ یُنکِرُ أَن یَّکُونَ عُثمَانَ رَضِیَ اللّٰهُ عَنْهُ أَحدَثَهٗ ، وَ یَقُولُ: اَحدَثَهٗ مُعَاوِیَةُ۔ وَاللّٰهُ أَعلَمُ… وَاَیُّهُمَا کَانَ ، فَالأَمرُ الَّذِی عَلٰی عَهدِ رَسُولِ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَحَبُّ اِلَیَّ‘کتاب الامّ للشافعي،بَاب وَقتُ الأَذَانِ لِلجُمُعَةِ،ج:۱،ص:۱۷۳
’’امام عطاء تابعی رحمہ اللہ کو اس سے انکار ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے یہ اذان جاری کی تھی، بلکہ ان کے مطابق اس کو حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے شروع کیا تھا۔ (واﷲ اعلم ) پھر فیصلہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ قطع نظر اس سے کہ کس نے یہ اذان جاری کی تھی۔مجھے تو رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہدِ رسالت والی صورتِ حال( ایک اذان) ہی زیادہ محبوب ہے۔‘‘
علامہ البانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
’ کَانَ (الشَّیخُ مُحَمَّدُ بنُ نَاصِرٍ) یَقتَصِرُ یَومَ الجُمُعَةِ عَلٰی مُؤَذِّنٍ وَّاحِدٍ، وَ أَذَانٍ وَّاحِدٍ غَیرَ الاِقَامَةِ أُسوَةٌ بِرَسُولِ اللّٰهِ ﷺ إِذ لَم یَکُن فِی زَمَنِهٖ ، وَ لَا فِی زَمَنِ أَبِی بَکرٍ رَضِیَ اللّٰهُ عَنهُ عَلٰی مَا هُوَ الأَشهَرَ، وَ صَدرًا مِن خِلَافَةِ عُثمَانَ، وَ کَانَ لَا یُوذِّنُ فِی زَمَنِهٖ عَلَیهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ إِلَّا مُؤَذِّنٌ وَاحِدٌ۔ وَهٰذَا هُوَ الصَّحِیحُ المُعتَمَدُ‘الأَجوبةُ النَّافِعَةُ،ص:۱۰
’’جناب شیخ محمد بن ناصر، رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی میں جمعہ کے دن ایک ہی مؤذن اور ایک ہی اذان پر اکتفا فرماتے تھے۔ کیونکہ مشہور ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کے عہد میں اور پھر خود حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی خلافت کے اوّل حصہ میں اس پہلی اذان کا کوئی وجود نہ تھا۔ نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں مؤذن بھی ایک ہی ہوتا تھا۔‘‘
شیخ الاسلام حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کے مطابق مغربی ائمہ محدثین کا عمل بھی ایک اذان پر تھا۔ چنانچہ لکھتے ہیں:
’ وَ بَلَغَنِی أَنَّ أَهلَ المَغرِبِ الاَُدنٰی الاَٰنَ، لَا تَاذِینَ عِندَهُم سِوَیَ مَرَّةٍ ‘فتح الباری:۳۲۷/۲
’’مجھے یہ اطلاع ملی ہے کہ اہلِ مغرب کے ہاں جمعہ کے دن صرف ایک ہی اذان کا دستور رائج ہے۔‘‘
اور معلوم ہے کہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کی وفات ۸۵۲ھ میں ہوئی تھی۔
’ وَحَرَصُوا عَلَی إِبقَاءِ الأَذَانِ قَبلَ خُرُوجِ الاِمَامِ ، وَ قَد زَالَتِ الحَاجَةُ إِلَیهِ، لِأَنَّ المَدِینَةَ لَم یَکُن بِهَا اِلَّا المَسجِدَ النَّبَوِیّ… أَمَّا الآنَ قَد کَثُرَت المَسَاجِدُ ، وَبُنِیَت فِیهَا المَنَارَاتُ، وَ صَارَ النَّاسُ یَعرِفُونَ وَقتَ الصَّلٰوةِ بِأَذَانِ المُؤَذِّنِ عَلَی المَنَارَةِ، فَإِنَّا نَرٰی اَن یُکتَفٰی بِهٰذَا الأَذَانِ ، وَ أَنَّ یَّکُونَ عِندَ خُرُوجِ الاِمَامِ اِتِّبَاعًا لِلسُّنَّةِ‘التعلیق علی سنن الترمذی،بَابُ مَا جَاءَ فِی أَذَانِ الجُمُعَةِ،ج:۲،ص:۳۹۳
’’لوگ جمعہ کی مروّجہ پہلی اذان کو بحال رکھنے پر حریص واقع ہوئے ہیں، جب کہ اس کی ضرورت باقی نہیں رہی۔ کیونکہ جس دَور میں یہ اذان شروع کی گئی تھی، اس وقت مدینہ منورہ میں سوائے مسجد نبوی کے دوسری کوئی مسجدِ( جمعہ) نہ تھی۔ مگر اب تو بکثرت مساجد موجود ہیں اور ان میں بلندوبالا منارات تعمیر ہو چکے ہیں اور منارہ پر جب مؤذن اذان پڑھتا ہے، تو لوگوں کو نماز کے وقت کا بآسانی پتہ چل جاتا ہے۔لہٰذا ہماری رائے یہ ہے کہ خالص سنتِ رسول کی اتباع میں ایک ہی اذان پر اکتفا کی جائے اور یہ اذان اس وقت پڑھی جائے، جب امام خطبہ کے لیے تشریف لے آئے۔‘‘
’ هٰذَا الغَرَضُ الَّذِی أُحدِثَ الأَذَانُ الثَّانِی مِن أَجلِهٖ فِی زَمَنِ عُثمَانَ رضى الله عنه، لَیسَ مَوجُودًا فِی زَمَانِنَا۔ فَإِنَّنَا لَم نَرَی أَذَانًا یُفعَلُ بَعِیدًا عَنِ المَسجِدِ۔ فَإِذَا یُطلَبُ الاِقتِصَارُ عَلٰی أَذَانٍ وَّاحِدٍ فِی الجُمُعَةِ فِی زَمَانِنَا ، کَمَا کَانَ فِی زَمَنِ النَّبِیِّﷺ وَصَاحِبَیهِ أَبِی بَکرٍ، وَ عُمَرَ لِعَدَمِ الغَرَضِ الَّذِی أَحدِثَ الأذَانُ الثَّانِی مِن أَجلِهٖ۔ وَمَن لَّم یَقتَصِر عَلٰی أَذَانٍ وَاحِدٍ، فَقَد خَالَفَ سَیِّدُنَا عُثمَانَ فَضلًا عَن غَیرِهٖ۔ وَهٰذَا مَعلُومٌ لِمَنِ اطَّلَعَ عَلٰی مَا هُوَ مُقَرَّرٌ فِی کُتُبِ السُّنَّةِ‘المنهل العذب المورود شرح سنن أبی داؤد:۲۴۷/۶
یعنی جس غرض کے لیے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اس اذان کی داغ بیل ڈالی تھی وہ غرض اب ہمارے زمانے میں ختم ہو چکی ہے۔ لہٰذا ہماری رائے میں مسجد سے دُور اذان کی ضرورت نہیں۔ اس لیے اب اس طرح جمعہ کے لیے ایک ہی اذان پر اکتفا کرنا چاہیے، جس طرح رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم ،حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما کے عہدِ مبارک میں ایک ہی اذان کہی جاتی تھی، کیونکہ اب پہلی اذان کی ضرورت باقی نہیں رہی۔ بناء بریں اب جو شخص ایک اذان پر اکتفا نہیں کرتا۔ وہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم حضرات شیخین کی مخالفت کے ساتھ ساتھ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے بھی خلاف کر رہا ہے۔
نیز لکھتے ہیں:
’ وَ عَلٰی فَرضٍ، أَنَّهٗ وُجِدَ الغَرَضُ الَّذِی أُحدِثَ الأَذَانُ الثَّانِی مِن أَجلِهٖ، زَمَنَ سَیِّدِنَا عُثمَانَ رَضِیَ اللّٰهُ عَنْهُ یُطلَبُ أَن یَقتَصِرَ عَلیٰ أَذَانٍ وَاحِدٍ۔ کَمَا صَرَّحَ بِذَالِكَ الشَّافِعِیُّ فِی ’الاُمِّ‘المنهل العذب المورود:۲۴۷/۶
’’بالفرض یہ مان لیا جائے کہ جس غرض کے پیشِ نظر حضرت عثمان کے عہد میں یہ اذان شروع کی گئی تھی وہ غرض اب بھی موجود ہے تو پھر بھی اتباعِ سنت کے تقاضے کے مطابق ایک ہی اذان پر اکتفاء کرنا چاہیے۔ جیسا کہ امام شافعی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب’’ الاُمّ‘‘ (ج:۱/۱۷۳) میںتصریح فرمائی ہے۔‘‘
مزید لکھتے ہیں اور وضاحت سے لکھتے ہیں :
’ ( فَمَا یَفعَلُهُ) النَّاسُ قَبلَ دُخُولِ الوَقتِ مِمَّا یُسَمُّونَهٗ بِالأَولٰی وَالثَّانِیَةِ۔ ( لَا أَصلَ لَهٗ) لِأَنَّهٗ لَم یَفعَلهُ النَّبِیُّﷺ، وَ لَا أَمَرَ بِهٖ ، وَ لَا فَعَلَهٗ أَحَدٌ مِّن أَصحَابِهٖ، وَ لَا مِنَ السَّلَفِ، بَل هُوَ مُحدَثٌ أَحدَثَهٗ بَعضُ الأُمَرَاءِِ کَمَا ذَکَرَهٗ ابن الحَاجّ، فَیَتَعَیَّنُ تَرکُهٗ لِأَنَّ تَرکَهٗ ﷺ إِیَّاهُ مَعَ وُجُودِ المُقتَضٰی۔ وَهُوَ تَشرِیعُ الأَحکَامِ فِی حَیَاتِهٖ۔ وَاستِمرَارُهٗ عَلٰی ذٰلِكَ حَتّٰی فَارَقَ الدُّنیَا یَدُلُّ عَلٰی عَدَمِ مَشرُوعِیَّتِهٖ۔ وَ کَذَلِكَ إِجمَاعُ الأُمَّةِ مِنَ الصَّحَابَةِ وَالسَّلَفِ الصَّالِحِ عَلٰی هٰذَا التَّرك دَلِیلٌ عَلٰی أَنَّ تَرکَهٗ هُوَ السُّنَّةُ وَ فِعلُهٗ بِدعَةٌ مَذمُومَةٌ ‘المنهل العذب المورود:۶۲۴۵/۶
’’ نماز جمعہ کے وقت سے پہلے لوگ جو اذان پڑھتے ہیں اور اس کو پہلی اذان کہتے ہیں اور وقت آنے پر پڑھی جانے والی اذان کو دوسری اذان کا نام دیتے ہیں۔ یہ ایک ایسی بے اصل بات ہے جس پر نہ کبھی حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود عمل کیا اور نہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا حکم دیا تھا۔نہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم ، اور ائمہ سلف رحمہ اللہ نے ایسا کیا، بلکہ محقق ابن الحاج کے مطابق یہ کسی حکمران کی جاری کردہ بدعت ہے۔ لہٰذا اس کا ترک شرعاً متعین ہے۔ کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا عہد تشریع احکام کا عہد تھا اور اس کی ضرورت بھی تھی لیکن اس کے باوصف آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اس کو ہمیشہ ترک کیے رکھنااور اسی ترک پر آپ کا وفات پا جانا اس کے عدمِ مشروع ہونے پر دلالت کرتا ہے۔ اسی طرح صحابہ رضی اللہ عنہم اور سلف صالحین کا بھی اس کے ترک پر اجماع ہے اور ان کا یہ اجماع بھی اس امر کی دلیل ہے کہ اس اذان کو چھوڑ دینا ہی سنت ہے اور اس کو جاری رکھنا بدعت ہے۔‘‘
’ قَد مَضٰی أَنَّ عُثمَانَ رَضِیَ اللّٰهُ عَنْهُ إِنَّمَا زَادَ الأَذَانَ الأوَّلَ لِیَعلَمَ النَّاسُ أَنَّ الجُمُعَةَ قَدحَضَرَت، فَاِذَا أُذِیعَ الأَذَانُ المُحَمَّدِی بِالمِذیَاعِ ، فَقَد حَصَلَتِ الغَایَةُ الَّتِی رَمٰی إِلَیهَا عُثمَانُ بِأَذَانِهٖ، وَ اعتَقَدَ أَنَّهٗ لَو کَانَ المِذیَاعُ فِی عَهدِ عُثمَانَ، وَ کَانَ یَرَی جَوَازَ اِستِعمَالِهٖ، کَمَا نَعتَقِدُ، لَکَانَ رَضِیَ اللّٰهُ عَنْهُ اِکتَفٰی بِاَذَاعَةِ الأَذَانِ المُحَمَّدِی۔ وَأَغنَاهُ ذٰلِكَ عَن زِیَادَتِهٖ ‘الأَجوبة النافعة،ص:۱۳
’’یہ ثابت ہو چکا کہ امیر المومنین حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے جمعہ کی اذان محض اس لیے جاری فرمائی تھی تاکہ لوگوں کو جمعہ کے وقت کا علم ہو جائے۔ مگر اب ہمارے زمانہ میں ریڈیو، (لاؤڈ سپیکر وغیرہ) ایجاد ہو چکے ہیں۔ لہٰذا جب محمدی اذان ریڈیو پر نشر کی جائے گی، تو اس ایک ہی اذان کے ساتھ وہ مقصد حاصل ہو جائے گا، جس کے حصول کے لیے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اذان(عثمانی) کا اجراء فرمایا تھا۔ میرا عقیدہ یہ ہے کہ اگر ان کے عہدِ خلافت میں ریڈیو موجود ہوتا، اور ہماری طرح اس کے استعمال کو جائز سمجھتے، تو وہ بس اذانِ محمدی یعنی ایک ہی اذان پر اکتفا فرماتے کہ یہ آلہ ان کو اس زائد اذان کے اضافہ سے بے نیاز کردیتا۔‘‘
شیخ موصوف دوسرے مقام پر لکھتے ہیں:
’ وَالخَلَاصَةُ أَنَّ الَّذِی ثَبَتَ فِی السُّنَّةِ، وَ جَرٰی عَلَیهِ السَّلَفُ الصَّالِحُ هُوَالاِکتِفَاءُ بِالأَذَانِ الوَاحِدِ عِندَ ضُعُودِ الخَطِیبِ عَلَی المِنبَرِ وَ أَن یَّکُونَ خَارِجَ المَسجِدَ عَلٰی مَکَانٍ مُرتَفِعٍ‘الاجوبة النافعة،ص:۳۴
’’خلاصۂ کلام یہ کہ سنتِ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم سے جو کچھ ثابت ہے اور سلف صالح کا جس چیز پر عمل رہا ہے، وہ تو بس ایک ہی اذان ہے جو خطیب کے منبر پر بیٹھ جانے کے بعد مسجد کے صحن وغیرہ میں کسی بلند مقام پر پڑھی جاتی ہے۔‘‘
اس تفصیل سے درج ذیل باتیں ثابت ہوئیں۔
اوّل: یہ کہ جناب رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہدِ مبارک سے لے کر خلیفۂ ثالث حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے ابتدائی دورِ خلافت تک جمعۃ المبارک کے لیے صرف ایک اذان ہی ہوتی تھی، اور وہ بھی اس وقت جب خطیب خطبہ ارشاد فرمانے کے لیے منبر پر تشریف فرما ہو جاتا۔ یعنی عہدِ رسالت، عہدِ ابوبکر ،و عمر رضی اللہ عنہما کے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین رحمہ اللہ مروّجہ اذانِ عثمانی کے تصور سے قطعاً نابلد تھے۔
ثانی: یہ کہ چونکہ حضرت عثمان کے عہد میں مدینہ منورہ کی آبادی میں بکثرت اضافہ ہو گیا تھا اور مسجدِنبوی سے کافی دُور دُور تک نئے محلہ جات آباد ہو گئے تھے۔ مگر آبادی کی اس کثرت اور پھیلاؤ کے باوصف پورے مدینہ منورہ میں جمعہ صرف مسجد نبوی ہی میں پڑھا جاتا تھا اور خطبہ کے شروع میں پڑھی جانے والی متوارث اذان( اذانِ محمدی) مقامِ ’’زورائ‘‘ سے پرے بسنے والوں کو سنائی نہ دیتی تھی اور وہاں سے آتے آتے خطبہ ختم ہو جاتا تھا اور یوں یہ لوگ اوّل وقت پر آنے اور خطبہ سننے کی فضیلت سے محروم رہ جاتے تھے۔ لہٰذا حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے ان لوگوں کی اس مشکل کے ازالہ کے لیے نمازِ جمعہ کو دوسری نمازوں پر قیاس کرتے ہوئے کہ ان کی اذانیں جماعت کھڑی ہونے سے پہلے کہی جاتی ہیں۔ خطبۂ جمعہ کے وقت سے تھوڑا وقت پہلے مقام ’’زورائ‘‘ پر ایک زائد اذان کہلوانی شروع کردی گویہ مقام ’’زورائ‘‘ مسجد نبوی سے ایک فرلانگ اور اٹھاون گز کے فاصلہ پر واقع تھا۔ تاہم وہاں کے مکینوں کی اطلاع کے لیے بڑا موزوں تھا۔ بالفاظ دیگر یہ ایک مقامی اور ہنگامی ضرورت سے عہدہ برآ ہونے کی ایک انتظامی تدبیر تھی۔
ثالث: ہر چند حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے دوسرے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی موجودگی میں مذکورہ بالا ہنگامی اور مقامی ضرورت کے پیشِ نظر اپنے اجتہاد سے اس اذان کا آغاز فرمایا تھا، مگر بایں ہمہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی نگاہ میںاس اذان کو وہ قبولِ عام حاصل نہ ہو سکا جو کہ متوارث اور خالص مسنون اذان کو حاصل ہے۔ ورنہ حضرت علی رضی اللہ عنہ اپنے دارالخلافہ کوفہ شہر میںاس کو نظر انداز کرکے ایک اذان پر اکتفاء نہ فرماتے اور حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اللہ عنہما جیسے عاشقِ سنت صحابی ،امام زُہری اور امام حسن بصری رحمہ اللہ جیسے تابعین اور فقہاء اس اذانِ عثمانی کو بدعت اور مُحدَث کہنے کی کبھی ضرورت محسوس نہ فرماتے۔ لہٰذا ان کے اس طرزِ عمل سے ثابت ہوا کہ جمعۃ المبارک کی ایک ہی اذان سنتِ نبوی، سنت ِ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ، اورشرعی اذان ہے اور اذانِ عثمانی کو ہر لحاظ سے مسنون اور شرعی اذان باور کرلینا درست نہیں۔
رابع: حضرت علی،حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اللہ عنہما ، امام زہری، امام حسن بصری، امام شافعی رحمہ اللہ ایسے فقہائِ دین اور اساطینِ علم کی مذکورہ تنقیدات اور تنقیحات سے قطع نظر یہ بات بھی بالکل ظاہر ہے کہ اب ہمارے اس ترقی یافتہ مشینی دَور میں ہمارے شہروں اور دیہات میں اذانِ عثمانی کی مذکورہ عِلَّت اور سبب بو جوہ ذیل متحقق نہیں۔
اوّلاً: اس لیے کہ شہر تو شہر ہیں ان کا ذکر ہی کیا اب تو ہر ایک گاؤں میں ایک سے زیادہ مساجد میں جمعہ پڑھا جاتا ہے اور ان متعدد مساجد میں پڑھی جانے والی متعدد اذانیں آبادی کے ہر ایک کونے تک بسہولت سنی جاتی ہیں اور یوں لوگوں کو بآسانی جمعہ کے وقت کا علم ہو جاتا ہے۔
ثانیاً: اس لیے کہ اب شہروں اور قصبات کی طرح دیہات کی طرح ہر ایک چھوٹی بڑی مسجد میں آلۂ تجہیر الصوت (لاؤڈ سپیکر) نصب ہوتا ہے اور اس میں پڑھی جانے والی اذان تو گہری نیند میں خراٹے بھرنے والوں کوبھی چونکا دیتی ہے اور مزید اب گھڑیوں کی بہتات نے اس مشکل کو ویسے بھی کوئی مشکل نہیں رہنے دیا۔
اس لیے اندریں حالات ہماری ناقص رائے میں اذان عثمانی کے معاملے میں بھی دوسرے شرعی مسائل کی طرح خود صاحبِ شریعت جناب رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذاتی اسوۂ حسنہ کا اتباع ہی أقرب إلی الصواب اور مُوجبِ فلاح و فوز اور بلندیٔ درجات و حسنات ہے۔ کیونکہ جس سبب مبرر کے پیشِ نظر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اس زائد اذان(عثمانی) کو رواج بخشا تھا۔ اب وہ سبب متحقق نہیں۔ لہٰذا اب بھی اس اذان کو مسنون اور شرعی اذان باور کرکے اس کے جاری رکھنے پر اصرار کرنا صحیح نہیں۔ ہاں اگر کسی جگہ واقعی اس اذان کی ضرورت ہو تو یہ اذان دی جا سکتی ہے۔ مگر بلا ضرورت اس کو اختیار کیے رکھنا اتباعِ سنت کے تقاضوں کے منافی ہے۔واﷲ تعالیٰ أعلم بالصواب
اب رہا یہ سوال کہ اذان کہاں دی جائے؟ خطیب کے سامنے مسجد کے اندر یا مسجد کے صحن میں یا اس کے دروازے پر یا مسجد کے احاطہ سے باہر۔ تو واضح ہو کہ اہلِ علم نے اذان کی تعریف اس طرح فرمائی ہے:
’ اَلأَذَانُ لُغَةً: اَلاِعلَامُ ، قَالَ اللّٰهُ تَعَالٰی :﴿وَ أَذَانٌ مِنَ اللّٰهِ وَرَسُولِهِ﴾(التوبة:۳) اَی إِعلَامٌ مِنهُمَا۔ وَ شَرعًا : هُوَ الاِعلَامُ بِدُخُولِ وَقتِ الصَّلٰوةِ المَفرُوضَةِبِاَلفَاظٍ مَخصُوصَةٍ۔ ‘تیسیر العلّام:۱۳۷/۱
’’لہٰذا اس اذان کی لغوی اور شرعی تعریف سے معلوم ہوا کہ اذان محض اس لیے دی جاتی ہے تاکہ نماز پڑھنے والوں کو فرض نماز کے وقت کا علم ہو جائے
اور اسی مقصد کے حصول کے لیے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم بلند مقام پر اذان کہلواتے تھے تاکہ لوگوں کو زیادہ سے زیادہ سنائی دے سکے۔ لہٰذا اذان خواہ پہلی ہو یا دوسری کسی ایسے بلند مقام، منارہ یا اونچی جگہ پر دینی چاہیے۔ جہاں سے دُور دُور تک آواز پہنچ سکے۔ تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ سن سکیں۔ چنانچہ یہی وجہ ہے کہ اہلِ علم اور اصحابِ فتویٰ نے مسجد کے اندرمنبر کے قریب اذان دینے کو بدعت قرار دیا ہے۔ چند تصریحات ملاحظہ فرمائیے۔
الشیخ محمود محمد خطاب السبکی تصریح فرماتے ہیں:
’أَمَّا مَا یُفعَلُ الآن مِن وُقُوعِ الأَذَانَینِ فِی مَکَانٍ وَّاحِدٍ، أَو أَحَدِهِمَا فَوقَ المَسجِدِ۔ وَالآخَرُ دَاخِلَ المَسجِدِ ، فَلَیسَ مُوَافِقًا لِمَا کَانَ عَلَیهِ سَیِّدُنَا عُثمَانُ، وَ لَا مَا کَانَ عَلَیهِ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَ أَبُو بَکرٍ، وَ عُمَرُ رَضِیَ اللّٰهُ عَنهُمَا ‘المنهل العذب المورود:۲۴۶/۶
’’اب جو دونوں اذانیں ایک ہی جگہ( مسجد کے اندر منبر کے نزدیک) دی جاتی ہیں یا ایک مسجد کی چھت پر اور دوسری چھت کے نیچے تو یہ نہ تو سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے طرزِ عمل کے موافق ہے اور نہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ،حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما کے طرزِ عمل کے مطابق۔‘‘
محدَّث عصر حاضر علامہ البانی رحمہ اللہ :
تصریح فرماتے ہیں:
’ وَالخُلَاصَةُ أَنَّ الَّذِی ثَبَتَ فِی السُّنَّةِ، وَ جَرٰی عَلَیهِ السَّلَفُ الصَّالِحُ ، هُوَ الاِکتِفَاءُ بِالأَذَانِ الوَاحِدِ… وَ أَن یَّکُونَ خَارِجَ المَسجِدِ عَلٰی مَکَانٍ مُرتَفِعٍ۔ وَ أَنَّهٗ إِن احتِیجَ إِلٰی أَذَانٍ عُثمَانِیٍّ۔ فَمَحَلُّهٗ خَارِجَ المَسجِدِ، أَیضًا فِی المَکَانِ الَّذِی تَقتَضِیهِ المَصلَحَةُ وَ یَحصُلُ بِهِ التَّسمِیعُ أَکثَرَ۔ و أَنَّ الأَذَانَ فِی المَسجِدِ بِدعَةٌ عَلٰی کُلِّ حَالٍ ‘الاجوبة النافعة،ص:۳۴
’’رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم اور سلف صالح سے تو بس ایک ہی اذان ثابت ہے اور وہ بھی کسی بلند مقام پر دینی چاہیے۔ اگر کسی مصلحت کے پیشِ نظر اذانِ عثمانی کی ضرورت پڑ ہی جائے، تو پھر مسجد کے باہر کسی ایسے مقام پر دی جائے جہاں اس مصلحت کا تقاضا پورا ہو سکتا ہو اور زیادہ سے زیادہ دُور تک سنائی دے سکے۔ تاہم مسجد میں اذان دینا( جیسا کہ ہمارے ہاں عام رواج چل نکلا ہے) بہرحال بدعت ہے۔(توضیح از صلاح الدین یوسف رحمته الله عليه…: اذان کی اصل غرض جب زیادہ سے زیادہ لوگوں کو اطلاع دینا ہے، تو یہ غرض اگر مسجد کے اندر اذان دینے سے حاصل ہوتی ہو، تو اسے بدعت کیونکر کہا جا سکتا ہے ؟ جیسا کہ آج کل لاؤڈ سپیکر مسجد کے اندر ہی نصب ہوتا ہے، اور اس کے ذریعے سے ہی اذان زیادہ دُور تک پہنچائی جا سکتی ہے۔ اس لیے مسجد کے اندر اذان دینے کو ہر حال میں بدعت قرار دینا محلِ نظر ہے۔(ص۔ی)]
’ نَقَلَ حَافِظُ المَغرِبِ أَبُو عُمَرَ بنُ عَبدِ البَرِّ عَن مَالِكِ بنِ أَنَسٍ الاِمَامِ، أَنَّ الأَذَانَ بَینَ یَدَیِ الاِمَامِ لَیسَ مِنَ الأَمرِ القَدِیمِ‘عون المعبود:۴۲۴/۱،رقم :۱۰۸۸
یعنی امام مالک بن انس رحمہ اللہ تصریح فرماتے ہیں کہ امام کے نزدیک( مسجد کے اندر )اذان پڑھنا ایک نیا رواج ہے۔‘‘
’ أَنَّ السُّنَّةَ فِی اَذَانِ الجُمُعَةِ إِذَا صَعِدَ الاِمَامُ عَلَی المِنبَرِ، أَن یَکُونَ المُؤَذِّنُ عَلَی المَنَارِ۔ کَذَالِكَ کَانَ عَلٰی عَهدِ النَّبِیِّ ﷺ وَ أَبِی بَکرٍ، وَ عُمَرُ، وَ صَدرًا مِّن خِلَافَةِ عُثمَانَ رَضِیَ اللّٰهُ عَنهُم… قَالَ عُلَمَاؤُنَا۔ وَ سُنَّةُ النَّبِیُّﷺ أَولٰی أَن تُتَّبَع۔ فَقَد بَانَ اَنَّ فِعلَ ذَلِكَ فِی المَسجِدِ بَینَ یَدِی الخَطِیبِ بِدعَةٌ ‘عون المعبود:۴۲۴/۱
’’جمعہ کی اذان کے متعلق سنت طریقہ یہ ہے کہ جب امام خطبہ پڑھنے کے لیے منبر پر چڑھے تو اس وقت مؤذن منار پر کھڑا ہو۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ، حضرت ابوبکر و عمر اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہم کی خلافت کے شروع زمانہ تک اسی دستور پر عمل رہا۔ پھر خلیفہ ہشام بن عبد الملک نے اذانِ عثمانی کو منار پر اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد سے لے کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی وفات تک پڑھی جانے والی مسنون و متوارث اذان کو اپنے سامنے کہلوانا شروع کردیا۔ اس واسطے ہمارے مالکی علماء نے کہا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہی پیروی کے زیادہ لائق ہے۔ اس سے واضح ہے کہ مسجد کے اندر خطیب کے سامنے اذان دینا بدعت ہے۔‘‘
امام شمس الحق ڈیانوی رحمہ اللہ :
حضرت سائب بن یزید رضی اللہ عنہ کی حدیث کے جملہ’’کَانَ یُؤَذِّنُ بَینَ یَدَی رَسُولِ اللّٰهِ ﷺ ‘‘ کی شرح میں رقم فرماتے ہیں:’’ بَینَ یَدَی‘‘ کا معنی سامنے ہے، جو قریب اور بعید دونوں کو شامل ہے۔ پھر معنی یہ لکھا ہے:
’ وَالمَعنٰی: اَنَّ بِلَالًا یُؤَذِّنُ قُدَّامَ النَّبِّی ﷺ، وَ أَمَامَهٗ، اِذَا جَلَسَ النَّبِیُّ ﷺ یَومَ الجُمُعَةِ۔ لٰکِن لَا یُؤَذِّنَ قُدَّامَهٗ عِندَ المِنبَرِ مُتَّصِلًا بِهٖ۔ کَمَا هُوَ المُتَعَارِفُ الآنَ فِی أَکثَرِ بِلَادَ الهِندِ إِلَّا مَا عَصَمَهُ اللّٰهُ۔ لِأَنَّ هٰذَا لَیسَ مَوضِعُ الأَذَانِ ۔ وَ تَفُوتُ مِنهُ فَائِدَةُ الأَذَانِ۔ ‘عون المعبود:۴۲۴/۱
’’اس حدیث کا معنی یہ ہے کہ جب رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کا خطبہ ارشاد فرمانے کے لیے منبر پر تشریف فرما ہو جاتے، تو حضرت بلال رضی اللہ عنہ اس وقت آپ کے سامنے کھڑے ہو کر اذان دیتے تھے، مگر اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ منبر کے عین متصل کھڑے ہو کر اذان دیا کرتے تھے جیسا کہ آج کل اکثر دیارِ ہند میں یہ غلط رواج چل نکلا ہے مگر جسے اﷲ تعالیٰ محفوظ رکھے۔ کیونکہ یہ اذان کی جگہ ہی نہیں۔ ایسا کرنے سے تو اذان کا مقصد ہی فوت ہو جاتا ہے۔‘‘(توضیح از صلاح الدین یوسفd…: علماء کی یہ تصریحات اُس دَور کی ہیں جب لاؤڈ اسپیکرایجاد نہیں ہوا تھا بلاشبہ بغیر اسپیکر کے مسجد کے اندر اذان سے اذان کا مقصد ہی فوت ہو جاتا ہے۔ اس صورت میں منارہ پر یا کسی اونچی جگہ پر ہی اذان دینی چاہیے۔ لیکن اسپیکر کی موجودگی میں اسپیکر کی بجائے منارہ پر چڑھنے کو ضروری قرار دینا صحیح نہیں ہے۔ کیونکہ اس طرح اذان کا مقصد زیادہ سے زیادہ دور تک آواز پہنچانا فوت ہو جاتا ہے۔ (ص۔ی)
علامہ احمد محمد شاکر مصری رحمہ اللہ :
لکھتے ہیں کہ مؤذنین کو حکم دیا جائے کہ جب خطبہ پڑھنے کے لیے خطیب منبر پر بیٹھ جائے تو مسجد کے دروازہ پر اذان کہا کریں۔(التعلیق علی الترمذی،بَابُ مَا جَائَ فِی أَذَانِ الجُمُعَۃِ،ج:۲،ص:۳۹۳)
مذکورہ دلائل کی روشنی میں مسجد کے اندر منبر کے عین متصل خطیب کے بالکل قریب کھڑے ہو کر اذان کہنا بہر حال بدعت ہے۔ اذان خواہ پہلی ہو کہ دوسری بہرحال ایسی جگہ پرکہنی چاہیے جہاں سے مؤذن کی اذان زیادہ سے زیادہ انسانوں کو سنائی دے سکے اور یہی سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور سنتِ شیخین ہے۔ ہاں اگر لاؤڈ اسپیکر میں اذان کہنا ہو تو پھر مسجد کے اندر منبر کے متصل بھی جائز ہے۔ تاہم پھر بھی جہاں تک ممکن ہو ، بہتر یہی ہے کہ مائک کی تار لمبی کرکے باہر صحن مسجد میں اذان کہی جائے اور ایسا کرنا کوئی مشکل بھی نہیں کہ صرف چند گز تار کی مزید ضرورت ہے۔
سوال کاجواب بحمداﷲ تعالیٰ و حسن توفیقہٖ مکمل ہو چکا۔ تاہم تکمیلِ فائدہ کی غرض سے چند ایک خدشات کا جواب ابھی باقی ہے اور وہ خدشات یہ ہیں:
۱۔ اذانِ عثمانی کو خلافِ سنت کہنا صحیح نہیں کیونکہ آپ خلیفہ راشد ہیں ہمیں حکم ہے:
’عَلَیکُم بِسنّتِی وَ سُنَّةِ الخُلَفَاءِ الرَّاشِدِینَ تَمَسَّکُوا بِهَا، وَ عَضُّوا عَلَیهَا بِالنَّوَاجِذِ‘ أخرجه أحمد و سنن أبی داؤد والترمذی وصححه والحاکم سنن أبی داؤد،بَابٌ فِی لُزُومِ السُّنَّةِ،رقم:۴۶۰۷
لہٰذا اذانِ عثمانی آج بھی قابلِ عمل ہے۔
جواب 1: اس حدیث میں ’’سُنّتِی‘‘ کا لفظ پہلے ہے اور سنتِ خلفائے راشدین دوسرے نمبر پر ہے چونکہ حضرت سائب بن یزید کی مذکورۃ الصدر حدیثِ صحیح سے ثابت ہو چکا ہے کہ سنتِ نبوی صرف ایک ہی اذان ہے۔ لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتِ ثابتہ کے ہوتے ہوئے چاروں خلفائے راشدین کے کسی اتفاقی عمل کی بھی کوئی اہمیت باقی نہیں رہتی۔ یہاں توسیدنا عثمان رضی اللہ عنہ اکیلے ہیں۔
جواب 2:سنتِ خلفائے راشدین سے مراد ان کا طریق نظام حکومت ہے۔ چنانچہ امام محمد بن اسماعیل الامیر الکحلانی اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں:
’فَإِنَّهٗ لَیسَ المُرَادُ بِسُنَّةِ الخُلَفَاءِ الرَّاشِدِینَ إِلَّا طَرِیقَتُهُمُ المُوَافَقَةُ لِطَرِیقَتِهٖﷺ مِن جِهَادِ الأَعدَاء وَ تَقوِیَةِ شَعَائِرِ الدِّینِ وَ نَحوِهَا‘سبل السلام:۲۱۱/۲
’’خلفائے راشدین کی سنت سے ان کا وہ سیاسی اور انتظامی طریق کار مراد ہے جو رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریق کے موافق ہو اور پھر یہ طریقِ کار دشمنانِ اسلام کے خلاف جہاد اور دوسرے دینی شعائر وغیرہ کی سربلندی اور تقویت سے تعلق رکھتا ہو۔‘‘
جواب 3: ’وَمَعلُومٌ مِن قَوَاعِدِ الشَّرِیعَةِ أَن لَیسَ لِخَلِیفَةِ رَاشِدٍ أَن یُشرِعَ طَرِیقَةً غَیرَ مَا کَانَ عَلَیهَا النَّبِیُّﷺ‘ الخ سبل السلام:۲/۱۱
اور یہ بھی معلوم ہے کہ قواعدِ شریعت کی رُو سے کوئی بھی خلیفہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریق کے علی الرغم کوئی طریقہ وضع کرنے کا مجاز نہیں رکھتا۔‘‘ چنانچہ یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے متعدد مقامات پر بہت سے مسائل میں حضرات شیخین رضی اللہ عنہما کی مخالفت کی ہے۔ جیسے حج تمتع، مسئلہ اضافۂ مہر، کتابیہ عورت سے نکاح وغیرہ اور یہ مخالفت اس بات کی دلیل ہے، کہ یہ حدیث اپنے عموم پر محمول نہیں۔ ورنہ وہ ایسا ہر گز نہ کرتے، بلکہ خلفائے راشدین کے ہر ایک قول و فعل کو حجت گردانتے۔ مگر انھوں نے ایسا نہیں کیا۔ لہٰذا معلوم ہوا خلفائے راشدین کا وہی طرزِ عمل حجت ہو گا، جو سنتِ ثابتہ کے موافق ہو ۔ ورنہ ہر گز نہیں۔
۲۔ اذانِ عثمانی پر صحابہ رضی اللہ عنہم کا اجماع ہو چکا ہے۔ جیسا کہ ’’فَثَبَتَ الأَمرُ عَلٰی ذَالِکَ‘‘سے متبادر ہے ملاحظہ ہو!صحیح بخاری۔أبوداؤد، سنن نسائی)
جواب: بلاشبہ صحابہ رضی اللہ عنہم کا اجماع حجت ہے، مگر اذانِ عثمانی پر صحابہ کا اجماع ثابت نہیں۔ ورنہ حضرت علی۔ حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اللہ عنہما جیسے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ۔ امام زہری ، امام حسن بصری; جیسے فقہاء تابعین اس کو بدعت اور مُحدَّث نہ گردانتے اور امام شافعی رحمہ اللہ جیسے مجتہد اس کے خلاف رائے قائم نہ کرتے اور نہ علمائے اہل مغرب اور شیخ ابن ناصر جیسے فحول علماء اس کو نظر انداز کرتے( جیسا کہ گزشتہ صفحات میں گزر چکا ہے) لہٰذا ہمارے نزدیک اس عبارت کا صحیح مطلب یہ ہے کہ امام بخاری، امام أبوداؤد، اور امام نسائی کے عہد میں اذانِ عثمانی کو قبول عام ہو گیا تھا۔ چنانچہ صاحب’’ المنھل العذب المورود شرح ’’سنن ابی داؤد‘‘ نے اس عبارت کا یہی مفہوم بیان کیا ہے۔ الفاظ یہ ہیں:
’ هٰذَا کَانَ بِالنِّسبَةِ لِزَمَنِ اَبِی دَاوٗد ‘المنهل العذب المورود:۲۴۶/۶
۳۔ ایک روایت میں اذانِ عثمانی کو تیسری اذان اور دوسری روایت میں پہلی اذان اور تیسری روایت میں دوسری اذان کہا گیا ہے ۔ ایسا کیوں ہے؟ لہٰذا مَا التَّوفِیقُ بَینَ هٰذِهِ الرِّوَایَاتِ المُتَعَارِضَة؟
جواب ’وَ لَا مَنَافَاةَ۔ لِأَنَّهٗ سُمِّیَ ثَالِثًا بِاِعتِبَارِ کَونِهٖ مَزِیدًا، وَ أَوَّلًا بِاعتِبَارِ کَونِهٖ فِعلُهٗ مُقَدَّمًا عَلَی الأَذَانِ، وَالإِقَامَةِ۔ وَ ثَانِیًا بِاعتِبَارِ الأَذَانِ الحَقِیقِ، لَا الاِقَامَةِ‘عون المعبود:۱/۴۲۳
’’ ان تینوں روایات میں کوئی منافات نہیں۔ چونکہ اذانِ عثمانی ایک زائد اذان ہے۔ لہٰذا اس اعتبار سے اذانِ محمدی اور تکبیر کے مقابلہ میں اس کو تیسری اذان کہا گیا ہے اور چونکہ یہ اذانِ عہدِ نبوی اور عہدِ شیخین والی متوارث اذان سے پہلے دی گئی تھی۔ لہٰذا ان وجوہ کے اعتبار سے اس کوراوی نے پہلی اذان کہہ دیا ہے، اور تکبیر چونکہ اذانِ حقیقی کے حکم میں نہیں آتی۔ لہٰذا اذانِ حقیقی کے اعتبار سے اذانِ عثمانی دوسری اذان قرار پائی اور یوں ان روایات میں کوئی تعارض نہیں۔‘‘
کتاب و سنت اور مسطورہ بالا فُحول علماء و فقہاء کی تصریحات اور تنقیحات کے مطابق جمعۃ المبارک کی ایک ہی اذان سنتِ نبوی، سنتِ صحابہ اور شرعی اذان ہے۔بہرحال کہ دوسری اذان حضرت عثمان رضی اللہ عنہ جیسے عظیم صحابی اور خلیفۂ راشد کی ایجاد کردہ ہے۔گو ضرورت کے تحت اب بھی اس کو اپنانے کی گنجائش ہے۔ تاہم اس کو ہر لحاظ سے مسنون اور شرعی اذان باور کرلینا درست نہیں۔ اگر یہ اذان ہر لحاظ سے مسنون اور شرعی ہوتی تو حضرت علی رضی اللہ عنہ اپنے دورِ خلافت میں اس کو نظر انداز نہ کرتے اور نہ حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اللہ عنہما ، امام حسن بصری، اور امام زہری رحمہ اللہ ، جیسے فقہاء تابعین اس کو بدعت اور محدث قرار دیتے۔ چنانچہ امام عبد الرحمن مبارکپوری رحمہ اللہ رقمطراز ہیں:
’ فَاِذَا عَرَفتَ أَنَّهٗ لَیسَ المُرَادُ بِسُنَّةِ الخُلَفَاءِ الرَّاشِدِینَ إِلَّا طَرِیقَتَهُمُ المَوَافَقَةَ لِطَرِیقَتِهٖ ﷺ،۔ لَاحَ لَكَ أَنَّ الاِستِدلَالَ عَلٰی کَونِ الأَذَانِ الثَّالِثِ الَّذِی هُوَ مِن مُجتَهَدَاتِ عُثمَانَ رَضِیَ اللّٰهُ عَنهُ أَمرًا مَسنُونًا، لَیسَ بِتَامٍ۔ أَلَا تَرَی أَنَّ ابنَ عُمَرَ رضی الله عنه قَالَ الأَذَانُ الاَوَّلُ یَومَ الجُمُعَةِ بِدعَةٌ فَلَو کَانَ هٰذَا الاِستِدلَالُ تَامًّا، وَ کَانَ الأَذَانُ الثَّالِثُ أَمرًا مَسنُونًا لَم یُطلَق عَلَیهِ لَفظُ البِدعَةِ، لَا عَلٰی سَبِیلِ الاِنکَارِ، وَ لَا عَلٰی سَبِیلِ غَیرِ الاِنکَارِ۔ فَإِنَّ الأَمرَ المَسنُونَ لَا یَجُوزُ أَن یُّطلَقَ عَلَیهِ لَفظُ البِدعَةِ بِأَیِّ مَعنًی فَتَفَکَّر‘تحفة الاحوذی:۱۳۶۹/۱
اور اسی طرح مسجد کے اندر منبر کے عین متصل اور خطیب کے بالکل قریب کھڑے ہو کر اذان کہنا بدعت ہے،إلاّ یہ کہ لاؤڈ سپیکر کا سہارا لیا جائے۔
لہٰذا کتاب و سنت کی روشنی میں دلیل کے لحاظ سے زید کا قول و فعل صحیح اور راجح ہے ۔ بکر کا قول و فعل چنداں مضبوط نہیں۔ اس لیے زید کو بُرا بھلا کہنا درست نہیں۔ ھٰذا ما عندی۔ واﷲ تعالیٰ أعلم بالصواب۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب