السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
تہجد اور فجر کی اذان کا وقفہ کتنا ہونا چاہیے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
شرع میں تہجد کی اذان کا کوئی ثبوت نہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم رات کے مختلف اوقات میں تہجد پڑھتے تھے۔ (صحیح البخاری ،بَابُ: قِیَامِ النَّبِیِّ صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَسَلَّمَ اللَّیلَ حَتَّی تَرِمَ قَدَمَاہُ ،رقم:۱۱۳۰)
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:
’ وَکَانَ لاَ تَشَاءُ أَن تَرَاهُ مِنَ اللَّیلِ مُصَلِّیًا إِلَّا رَأَیتَهُ، وَلاَ نَائِمًا إِلَّا رَأَیتَهُ ‘ صحیح البخاری،بَابُ قِیَامِ النَّبِیِّ صَلَّی اللهُ عَلَیهِ وَسَلَّمَ بِاللَّیلِ مِن نَومِهِ، وَمَا نُسِخَ مِن قِیَامِ اللَّیلِ،رقم:۱۱۴۱
’’تم جب بھی چاہو، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز پڑھتے دیکھ سکتے تھے اور جب بھی چاہو، سوئے ہوئے بھی دیکھ سکتے تھے۔‘‘
ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہاسے مروی ہے:
’ مَا أَلفَاهُ السَّحَرُعِندِی إِلَّا نَائِمًا ، تعنی النبی صلی الله علیه وسلم ‘صحیح البخاری ، بَابُ مَن نَامَ عِندَ السَّحَرِ، رقم:۱۱۳۳
یہ احادیث اس امر کا واضح ثبوت ہیں کہ نمازِ تہجد کا کوئی وقت متعین نہیں۔ چنانچہ اسی سے معلوم ہوا کہ تہجد کے لیے اذان بھی نہیں۔ جہاں تک بلالی اذان کا تعلق ہے، سو حدیث میں اس کے دو مقصد بیان ہوئے ہیں:
۱۔ تہجد گزار تہجد ختم کر دیں : ’لِیَرجِعَ قَائِمُکُم‘
۲۔ اور سوئے ہوئے بیدار ہو جائیں’وَلِیُنَبِّـهَ نَائِمَکُم‘صحیح البخاری ،بَابُ الأَذَانِ قَبلَ الفَجرِ، رقم:۶۲۱
اس کے علاوہ تیسرا کوئی مقصد نہیں۔
دونوں اذانوں میں وقفہ کے بارے میں سنن نسائی میں ہے:
’ إِنَّهٗ لَم یَکُن بَینَهُمَا إِلَّا أَن یَّنزِلَ هٰذَا وَیَصعَدَ هٰذَا ‘سنن النسائی،هَل یُؤَذِّنَانِ جَمِیعًا أَو فُرَادَی،رقم:۶۳۹
یعنی دونوں میں بہت کم وقفہ ہوتا تھا، اس کو مبالغے پر محمول کیا جائے تو قریبا بیس پچیس منٹ بنتے ہیں۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب