سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(248) اَلصَّلٰوۃُ خَیرٌ مِنَ النَّومِ کے متعلق ایک سوال پر تبصرہ اور اس کا جواب

  • 24258
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-13
  • مشاہدات : 697

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

’’الاعتصام‘‘ مؤرخہ ۱۵ مئی ،ص:۶، پر ایک سوال کے جواب میں آپ کا فرمان ہے کہ ’’صبح کی دو اذانوں کی صورت میں پہلی اذان میں ’اَلصَّلٰوة خَیرٌ مِنَ النَّومِ‘ کہنا چاہیے‘‘ اس ضمن میں عرض ہے کہ ’بلوغ المرام بَابُ الاَذَانِ‘ میں احمد اور ابن خزیمہ; کے حوالے، نیز ترمذی ’بَابُ التَّثوِیبِ فِی الفَجرِ‘ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ الفاظ صبح کی فرض نماز کی اذان سے متعلق ہیں، نہ کہ پہلی اذان سے کیونکہ قرآن میں فجر کی وضاحت اور حدیث میںتشریح بھی ہو گئی کہ فجر وہ ہے جس وقت ماہ رمضان میں خوردو نوش اور وصال(جماع) وغیرہ ممنوع ہو جاتا ہے۔ صلوٰۃ فجر کے بعد کسی نماز کے ممنوع ہونے سے بھی اس نماز کی اذان کا وقت طلوعِ فجر ہی مترشح(واضح) ہوتا ہے۔ان امثال سے مظہر (ظاہر)ہے کہ یہی وقت فجر کی اذان میں تثویب کرنے کا ہے۔ مسلک اہلِ حدیث نیز احناف کو ہند وپاک میں ہم نے آج تک اسی پر عامل پایا ہے۔ رہی بات کہ ’’ پہلی اذان کے وقت لوگ سوئے ہوئے ہوتے ہیں‘‘ اس میں تثویب کی وجہِ جواز قرینِ قیاس نہیں،کیونکہ اس وقت صحابۂ کرام   رضی اللہ عنہم  کی اکثریت مطابق سنتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم  رات کے آخری حصے میں محوِ سجود (سجدوں میں مصروف) ہوا کرتی تھی۔ قطع نظر ’’خیر القرون‘‘ کے اب تو دوسری اذان کے بعد تک اکثریت کا محوِ خواب رہنا عادت بن چکی ہے براہِ نوازش کتاب و سنت کی رُو سے مزید وضاحت فرما کر مطمئن فرمائیں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

گزارش ہے صبح کی پہلی اذان کا تعلق بھی من وجہ صبح سے ہے۔ جس طرح کہ جمعہ کی پہلی اذان کا تعلق جمعہ سے ہوتا ہے۔ حدیث میں اس کی دو علتیں بیان ہوئی ہیں۔ تہجد گزار تہجد ختم کردیں، اور سوئے ہوئے بیدار ہوجائیں۔ اس علت کا تقاضا یہ ہے کہ ’اَلصَّلٰوۃُ خَیرٌ مِنَ النَّومِ‘  کا تعلق پہلی اذان سے ہو۔ اس سے مقصود تہجد یا سحری کی اذان نہیں، جو ہمارے ہاں مشہور ہے شرع میں اس کا کوئی وجود نہیں۔ غالباً اس کے پیشِ نظر آپ کے ذہن میں اشتباہ پیدا ہوا ہے۔ دوسرا اس اذان کے ساتھ کھانے پینے کا ذکر محض اشتباہ(شبہ) دور کرنے کے لیے ہے کہ یہ وہ اذان نہیں جس کے ساتھ کھانا پینا حرام ہو جاتا ہے۔ بلکہ وہ دوسری اذان ہے۔ ورنہ لازم آئے گا کہ اس سے پہلے کھانا پینا جائز ہی نہ ہو کوئی بھی اس بات کا قائل نہیں۔

بخلاف امام یحییٰ قطان کے کہ انھوں نے اس کو رمضان سے مخصوص کردیا ہے۔ جب کہ حقیقت حال یہ ہے، کہ صحابۂ کرام   رضی اللہ عنہم  سارا سال نفلی روزے کثرت سے رکھا کرتے تھے۔ لہٰذا بلالی اذان بھی سارا سال جاری و ساری رکھنا مسنون ہے۔ صلوٰۃِ داؤدی میں رات کے آخری حصے میں سونا محبوب ترین عمل قرار دیاگیا ہے ظاہرہے کہ صحابۂ کرام   رضی اللہ عنہم  کا بھی اس پر عمل ہو گا۔ یہ کہنا کہ صحابۂ کرام   رضی اللہ عنہم  رات کے آخری حصہ میں ایک لمحہ بھی آرام نہیں کرتے تھے۔ دعویٰ بلا دلیل ہے، جب کہ دوسری طرف متعدد روایات میں پہلی اذان کی تصریح بھی موجود ہے۔ چنانچہ ’’سبل السلام‘‘ میں بحوالہ نسائی ہے:

’اَلصَّلٰوةُ خَیرٌ مِنَ النَّومِ اَلصَّلٰوةُ خَیرٌ مِنَ النَّومِ ،فِی الاَذَانِ الاَوَّلِ مِنَ الصُّبحِ‘سبل السلام:۱/۱۷۹،رقم:۱۶۷،سنن النسائی ،الْأَذَانُ فِی السَّفَرِ،رقم:۶۳۳

ابن ارسلان کہتے ہیں: ’وَصَحَّحَ ہَذِہِ الرِّوَایَۃَ ابنُ خُزَیمَةَ ‘ ’’اس روایت کو خزیمہ رحمہ اللہ نے صحیح کہا ہے۔‘‘ صاحب ’’البدر التمام‘‘ علامہ مغربی فرماتے ہیں: تثویب فجر کی پہلی اذان میں ہے کیونکہ سونے والے کو جگانے کے لیے ہے، اور اذانِ ثانی نماز کے وقت ہونے کا اعلان، اور نماز کی طرف بلانے کے لیے ہے اور نسائی کی سنن کبریٰ میں ہے:

’ کُنتُ أُوذِن لِرَسُولِ اللّٰهِ ﷺ۔ فَکُنتُ اَقُولُ فِی أَذَانِ الفَجرِ الاَوَّلِ : حَیَّ عَلَی الصَّلٰوةِ ۔حَیَّ عَلَی الفَلَاحِ ۔ اَلصَّلٰوةُ خَیرٌ مِنَ النَّومِ ‘سنن النسائی،التَّثوِیبُ فِی أَذَانِ الفَجرِ، رقم:۶۴۷

اس سے مطلق روایات مقید ہو گئیں ۔ جن میں صرف اذانِ فجر کا ذکر ہے۔ جب کہ بعض ائمہ حدیث کی تبویبات کا تعلق صرف اطلاق سے ہے۔ (وَالصَّحِیحُ مَا تَقَدَّمَ) پھر دوسری اذان کو اقامت پر محمول کرنا ظاہر کے خلاف ہے۔ جب کہ دو اذانیں مستقلاً ثابت شدہ امر ہے۔

  ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ حافظ ثناء اللہ مدنی

کتاب الصلوٰۃ:صفحہ:219

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ