السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ کیا صرف فجر کی اذان ہی ’’ترجیع‘‘ کے ساتھ پڑھنی چاہیے یا باقی نمازوں کی اذانیں بھی ’’ترجیع‘‘ کے ساتھ پڑھنے کی اجازت ہے؟ اور اگر اذان ترجیع کے ساتھ پڑھی گئی ہو تو تکبیر میں کتنے کلمے کہنے چاہئیں، اور’’قَد قَامَتِ الصَّلٰوةَ‘‘ کے جواب میں ’’اَقَامَهَا اللّٰهُ وَ اَدَامَهَا ‘‘ کس وقت پڑھنا چاہیے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
صحیح مسلم اور سنن کی کتابوں میں وارد حضرت ابو محذورہ کی روایت میں اذان میں ترجیع کا اِذن عام ہے۔ فجر سے مخصوص نہیں۔ بایں صورت ابو محذورہ کی روایت میں تکبیر میں سُترہ کلمات کا ذکر ہے۔ بظاہر اس کا جواز اس صورت میں ہے، جب اذان میں ’’ترجیع‘‘ ہو، ورنہ عام حالات میں تکبیر اکہری ہے، جفت نہیں۔ جس طرح کہ صحیح بخاری میں حضرت انس رضی اللہ عنہ کی روایت میں مصرّح (واضح) ہے، اور ’’قد قامت الصلوٰۃ‘‘ کے جواب میں ’’أقامها الله وأدامها‘‘(سنن ابی داؤد،بَابُ مَا یَقُولُ إِذَا سَمِعَ الإِقَامَةَ، رقم:۵۲۸)کہنے والی روایت تین علتوں کی بناء پر سخت ضعیف ہے۔
۱۔ محمد بن ثابت عبدی بالاجماع ضعیف ہے۔
۲۔ عبدی اور شہر بن حوشب کے درمیان واسطہ مجہول ہے۔
۳۔ شہر بن حوشب مختلف فیہ ہے۔(المجموع:۱۲۹/۳)
لہٰذا’’ قَد قَامَتِ الصَّلٰوةَ ‘‘ کے جواب میں اسی کلمے کا اعادہ ہونا چاہیے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب