سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(228) ایک ہی وقت میں کئی اذانوں کا جواب

  • 24238
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-02
  • مشاہدات : 835

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

اگر ایک ہی وقت میں تین چار اذانیں ہو رہی ہوں تو ان کا جواب کس طرح دینا چاہیے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

بظاہر احادیث اس بات پر دال ہیں کہ صرف ایک ہی اذان کا جواب دینا کافی ہے چنانچہ ایک روایت میں ہے:

’ اذِا سَمِعتُمُ المُؤذِّنَ فَقُولُوا: مِثلَ مَا یَقُولُ ‘(صحیح مسلم: بَابُ القَولِ مِثلَ قَولِ المُؤَذِّنِ لِمَن سَمِعَهُ، ثُمَّ یُصَلِّی عَلَی النَّبِیِّ ﷺ …الخ :۳۸۳)

’’ جب تم مؤذن کی اذان سنو تو جس طرح مؤذن کہتا ہے، تم بھی اسی طرح کہو۔‘‘

لیکن اس عموم کا اطلاق’’حَیعَلتَین‘‘ کے ما سوا پر ہو گا، کیونکہ صحیح مسلم میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ  کی روایت میں صراحت موجود ہے کہ ’’حَیَّ عَلَی الصَّلوٰة‘‘ اور ’’حَیَّ عَلَی الفَلَاحِ‘‘ کی جگہ’’لَاحَولَ وَ لَا قُوَّةَ اِلَّا بِاللّٰهِ‘‘ کہنا ہو گا۔ زیرِ حدیث ہذا امام کرمانی رحمہ اللہ  فرماتے ہیں:

’ قَالَ: قُل مَا یَقُولُ: وَ لَم یَقُل : مِثلَ مَا قَالَ : لِیَشعُرَ بِأَنَّهٗ یُجِیبُ بَعدَ کُلِّ کَلِمَةٍ مِثلَ کَلِمَتِهَا‘

یعنی ’’حدیث میں بصیغۂ مضارع’’یقول‘‘ کے لفظ ہیں اور بصیغۂ ماضی’’قَالَ‘‘  نہیں تاکہ یہ معلوم ہو سکے کہ جواب ہر کلمہ کے بعد دینا ہو گا۔‘‘

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ  فرماتے ہیں: نسائی کی روایت اس بارے مصرح ہے جس کے الفاظ یوں ہیں:

’ اِنَّهٗ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ کَانَ یَقُولُ: کَمَا یَقُولُ المُؤذِّنُ: حَتّٰی یَسکُتَ۔‘

 یعنی ’’ نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کلمات اس طرح دہراتے جس طرح مؤذن کہتا حتی کہ وہ خاموشی اختیار کرتا۔‘‘

اور صاحب ’’المرعاۃ‘‘  فرماتے ہیں: اس سے بھی زیادہ واضح حضرت عمر رضی اللہ عنہ  کی حدیث ہے، جو صحیح مسلم میں بایں الفاظ ہے:

’ إِذا قَالَ المُؤَذِّنُ : اللهُ أَکبَرُ اللهُ أَکبَرُ، فَقَالَ أَحَدُکُم: اللهُ أَکبَرُ اللهُ أَکبَرُ، ثُمَّ قَالَ : أَشهَدُ أَن لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ، قَالَ: أَشهَدُ أَن لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ، ثُمَّ قَالَ : أَشهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللهِ قَالَ: أَشهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللهِﷺ ‘صحیح مسلم،بَابُ القَولِ مِثلَ قَولِ المُؤَذِّنِ لِمَن سَمِعَهُ، ثُمَّ یُصَلِّی عَلَی النَّبِیِّ ﷺ…الخ ،رقم:۳۸۵

ان روایات میں بصورتِ اجابت مؤذن کی پیروی کی صراحت موجود ہے۔

ظاہر ہے کہ ایک وقت میں سب کی پیروی نہیں ہو سکتی۔ لہٰذا معلوم ہوا کہ صرف ایک ہی اذان کا جواب دینا کافی ہے جب کہ حدیث میں تعبیر بھی صیغۂ اِفراد (مفرد صیغہ) اس امر کی مؤید ہے(واﷲ أعلم)

  ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ حافظ ثناء اللہ مدنی

کتاب الصلوٰۃ:صفحہ:211

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ