سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(221) قبرستان کی جگہ مسجد تعمیر کرنے کا کیا حکم ہے ؟

  • 24231
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-17
  • مشاہدات : 507

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا اس مسجد میں نماز پڑھنا اور اِمامت کرانا جائز ہے جس کی قبلہ والی دیوارقبرستان سے ملتی ہے۔ اسی طرح جنوب مشرق کی طرف مسجد سے ملحقہ ایک دربار ہے جس میں شرک کیا جاتا ہے۔ اکثر حاضرین مسجد کا عقیدہ شرکیہ ہے نیز مسجد کی قبلہ دیوار میں دو کھڑکیاں ہیں جن کو بوقت ِضرورت کھولا جاتاہے تو سامنے قبریں نظر آتی ہیں۔ (ناظم دفتر جامعہ اشاعت الاسلام ،عارف والا)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

  1۔ صحیح مسلم میں حدیث ہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:قبروں کی طرف نماز نہ پڑھو نہ ان پر بیٹھو۔

( صحیح مسلم،بَابُ النَّہْیِ عَنِ الْجُلُوسِ عَلَی الْقَبْرِ وَالصَّلَاۃِ عَلَیْہِ،رقم:۹۷۲)

2۔        رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:تمام زمین مسجد ہے سوائے قبرستان اور حمام کے۔

( سنن ابن ماجہ،بَابُ الْمَوَاضِعِ الَّتِی تُکْرَہُ فِیہَا الصَّلَاۃُ،رقم:۷۴۵،سنن الترمذی،رقم:۳۱۷)

3۔        آپ نے فرمایا:کچھ نماز گھروں میں پڑھو اور ان کو قبریں نہ بناؤ۔

(صحیح مسلم،بَابُ اسْتِحْبَابِ صَلَاۃِ النَّافِلَۃِ فِی بَیْتِہِ، وَجَوَازِہَا فِی الْمَسْجِدِ،رقم:۷۷۷)

4۔        رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے آخری بیماری میں فرمایا:‘‘ اللہ یہود و نصاریٰ پر لعنت کرے انہوں نے اپنے انبیا کی قبروں کو مسجدیں بنالیا۔‘‘

(صحیح البخاری، بَابُ مَا یُکرَہُ مِنَ اتِّخَاذِ المَسَاجِدِ عَلَی القُبُورِ،رقم:۱۳۳۰)

5۔        آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا :‘‘اپنے گھروں کو قبریں نہ بناؤ۔ بے شک شیطان اس گھر سے بھاگ جاتا ہے جس میں سورئہ بقرہ پڑھی جائے‘‘۔

(صحیح مسلم،بَابُ اسْتِحْبَابِ صَلَاۃِ النَّافِلَۃِ فِی بَیْتِہِ، وَجَوَازِہَا فِی الْمَسْجِدِ،رقم:۷۸۰)

پہلی حدیث میں قبروں کی طرف نماز پڑھنے سے منع فرمایا گیا ہے۔ سوال میں جس مسجدکا ذکر ہے اس کے سامنے چونکہ کھڑکیاں کھلتی ہیں، اس لئے اس میں نماز پڑھنا قطعاً حرام ہے کیونکہ قبروں کا منظر سامنے ہوتا ہے۔ اگر کھڑکیاں بند ہوں توبہی ٹہیک نہیں کیونکہ کھڑکیاں قبروں کی خاطر رکھی گئی ہیں۔اور اس سے شبہ پڑتا ہے کہ مسجد قبرستان کا حصہ ہے لہٰذا ایسی مسجد میں نماز درست نہیں۔ چوتھی حدیث میں قبروں کو مسجد میں بنانے پر لعنت کی گئی ہے۔ اوردوسری حدیث میں قبرستان میں نماز سے منع فرمایا ہے۔

پھر اس کے اطراف میں قبروں کا ہونا یہ بھی اس بات کی تائید ہے کہ یہ مسجد قبرستان کا حصہ ہے۔ اگر بالفرض مسجد پہلے ہو اور قبریں پیچھے بنی ہوں تو بھی کچھ خلل آگیا۔ کیونکہ تیسری اور پانچویں حدیث میں گہروں کو قبریں بنانے سے روکا گیاہے اور گھر میں قبر کی یہی صورت ہوتی ہے کہ گھر کی حدود اور صحن وغیرہ میں قبر بنا دی جائے، مسجد کے آس پاس قبریں اس قسم سے معلوم ہوتی ہیں۔مزید برآں صورتِ نقشہ سے بھی کراہت کی شکل واضح ہے ،اس لئے ایسی مسجد میں نماز پڑھنے اور پڑھانے سے احتراز ضروری ہے۔

الکوکب النووی(۱۵۳/۱) میں ہے کہ قبروں پربنائی گئی مسجد میں نماز پڑھنا مکروہ ہے، چاہے قبر سامنے ہو یا پیچھے یا دو جانب سے کسی ایک جانب میں۔ البتہ اگر قبر سامنے ہو تو شدید ترین کراہت ہے۔ فقہاء ِ شافعیہ نے کہا قبروں پر مسجدیں بنانا اور ان میں نماز پڑھنا کبیرہ گناہ ہے۔(الزواجر:۱۲/۱)اور فقہاء ِ مالکیہ نے کہا کہ حرام ہے(تفسیر قرطبی:۳۸/۱)۔ اور فقہائِ حنابلہ نے کہا:ایسی مسجدوں میں نماز پڑھنا حرام بلکہ باطل ہے۔تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو ، زادالمعاد :۲۲/۳ اور مجموعہ فتاویٰ ۲۷/۱۴۰،۱۴۱)

  ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ حافظ ثناء اللہ مدنی

کتاب المساجد:صفحہ:204

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ