السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلے میں کہ غصب شدہ زمین پر نماز جائز ہے یا نہیں؟ قرآن و حدیث کی روشنی میں جواب دے کر عند اﷲ ماجور ہوں۔
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اس مسئلے میں اہلِ علم کااختلاف ہے۔ علمائے حنابلہ کے ہاں دو روایتیں ہیں: عدمِ جواز اور جواز۔ اسی طرح امام ابو حنیفہ، مالک اور شافعی بھی ایک قول کے مطابق جواز کے قائل ہیں۔ صاحب’’ المہذب‘‘ فرماتے ہیں: کہ غصب شدہ زمین میں نماز ناجائز ہے۔ کیونکہ یہاں نماز کے علاوہ عام قیام اور سکونت چونکہ حرام ہے ، اس لیے اس مقام پر نماز میں قیام بطریقِ اولیٰ ناجائز ہو گا البتہ اگر کوئی شخص یہاں نماز پڑھ لے تو نماز ہو جائے گی۔ کیونکہ ممانعت کا تعلق صرف نماز سے مخصوص نہیں جو اس کی صحت سے مانع ہو۔
امام نووی رقمطراز ہیں: کہ ایسی زمین میں نماز بالاجماع حرام ہے اور ہمارے نزدیک اور جمہور فقہاء اور اصحابِ اصول کے ہاں، اگر نماز پڑھ لی جائے، تو درست ہو جائے گی۔
میرا رجحان بھی اسی قول کی طرف ہے، کیونکہ نہی کا تعلق نفس نماز سے نہیں،جو صحت نماز سے مانع ہو۔تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو! اَلمَجمُوع شَرحُ المُھَذَّب:۳/۱۶۵، المغنی:۲/۴۷۶۔۴۷۷)
فقہاء کے اس قول سے غالباً یہ مراد ہے، کہ غصب شدہ زمین کا علم ہونے پر، اس میں نماز نہیں پڑھنی چاہیے۔ کیونکہ غصب ایک فعلِ حرام ہے، اور حرام ذرائع سے حاصل شدہ زمین میں نماز نہیں پڑھنی چاہیے۔ ہاں اگر کوئی اتفاقاً اس میں نماز پڑھ لیتا ہے، تو نماز ہو جائے گی ، دہرانے کی ضرورت نہیں، کیوںکہ ایسی زمین میں نماز سے بالخصوص ممانعت کسی نص میں وارد نہیں۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب