السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ہماری مسجد کے محراب میں اللہ کے کسی بندے نے نیک نیتی کی بنا پر ٹائلیں لگاتے ہوئے خوبصورت گلدستہ ہائے پھول لگا دیے ہیں۔ اب ان کی طرف توجہ کرنے سے نمازیوں کے خشوع میں خلل آتا ہے۔ صحیح بخاری میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا والی حدیث دیکھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ پردہ جس پر مورتیاں بنی ہوئی تھیں، ہٹا دینے کا حکم فرمایا اور حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ والی حدیث بھی زیر مطالعہ آئی جو انھوں ے اس طرح روایت کی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک زمانہ میں مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کچی اینٹوں کی بنی ہوئی تھی اور چھت پر کھجور کی ڈالیاں تھیں، جب کہ ستون کھجور کی لکڑی کے تھے۔ پھر ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اپنی خلافت میں کچھ نہیں بڑھایا اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے مسجد کو بڑھایا لیکن عمارت ویسی ہی رکھی، جیسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں تھی یعنی کچی اینٹ اور ڈالیوں کی چھت اور ستون کھجور کی لکڑی کے ، پر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اس کو بدل ڈالا اور بہت بڑھایا، اس کی دیواریں نقشی پتھر اور گچ سے بنوائیں اور اس کے ستون نقشی پتھروں کے اور اس کی چھت ساگوان سے بنائی۔
ان احادیث کے مطالعہ کے باوجود ہم فیصلہ نہیں کر پائے ۔ اب آپ سے دریافت ہے کہ آیا ان گلدستوں کومحرابِ مسجد سے نکال دینا چاہیے یا شریعت اسلامیہ میں اس کی گنجائش ہے؟۔
نوٹ: گلدستوں کو ہٹانے کی صورت میں انتشار کا بھی اندیشہ ہے۔(حافظ محمد یحییٰ ، لاہور کینٹ)
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
موجودہ صورت میں راجح مؤقف یہ ہے کہ نقش و نگار کو خرم کرکے سادہ پتھر لگائے جائیں یا اسی حالت میں پھولوں کے گلدستوں کو ہٹا دیا جائے اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا فعل محض ان کے اجتہاد پر مبنی ہے جب کہ مرفوع نص میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ دھاری دار کمبل میں نماز پڑھی تو اس کے نقش و نگار پر نگاہ پڑ گئی ۔ نماز سے فارغ ہو کر فرمایا: میرے اس کمبل کو ابوجہم کے پاس لے جاؤ( اس کے بدلے میں) اس سے سادہ موٹا کمبل لے آؤ کیونکہ اس نے مجھے میری نماز سے غافل کردیا ہے۔
شارح بخاری، حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: و یستنبط منہ کراھیۃ کل ما یشغل عن الصلاۃ من الاِصباغ والنقوش و نحوھا (فتح الباری:۱/۴۸۳)’’اس حدیث سے یہ استنباط کیا گیا ہے کہ ہر وہ شے جو نماز سے توجہ پھیر دے ،رنگ یا نقش و نگار وغیرہ تو اس کا استعمال ناجائز ہے۔‘‘ پھر واضح ہو کہ اختلاف یا انتشار وہاں ہوتا ہے جہاں اپنی مرضی ہو۔ شرعی نص کی موجودگی میںکسی مسلم کو اختلاف زیب نہیں دیتا۔ واللہ ولی التوفیق۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب