سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(188) راستے کی جگہ شامل کرکے مسجد کی توسیع کا حکم

  • 24198
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-02
  • مشاہدات : 1124

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ہمارے گاؤں میں ایک مسجد ہے جس کے مشرق،مغرب اور جنوب کے اطراف میں سرکاری سڑکیں ہیں جب کہ شمال کی جانب گھر ہیں۔ جنوب کی طرف جو راستہ ہے اس سے متصل جنوب ہی کی طرف خالی جگہ ہے جو کہ ملکیتِ سرکار ہے اور پنچایت گھر کے لیے ہے کچھ لوگ مسجد کو توسیع کرنا چاہتے ہیں جب کہ پہلی مسجد ہی نمازیوں کی ضرورت پوری کرکے خالی رہتی ہے جبکہ ایک منزلہ زائد بھی ہے۔ توسیع کرنے والوں کا خیال ہے کہ جنوب کی طرف جو راستہ ہے اسے مسجد میںشامل کرلیں اور اس راستہ کے متصل جنوب ہی کی طرف راستہ چھوڑ دیں جو کہ ملکیتِ سرکار ہے۔ گاؤں کے وہ لوگ جن کے استعمال میں یہ راستہ کثرت سے آتا ہے وہ اس پر خوش نہیں ہیں کیونکہ اس طرح ان کی مشکلات میں اضافہ ہوتا ہے لیکن یہ لوگ محنت مزدوری کرنے والے ہیں اور مسجد کے متولی چوہدری لوگ ہیں یہ ان کے سامنے اپنے جذبات کا اظہار نہیں کر سکتے اور نہ ہی عدالت میں ان سے ٹکرلے سکتے ہیں آپ سے عرض ہے کہ آپ شریعت کے نقطۂ نظر سے راہنمائی کریں اور ہمیں آگاہ فرمائیں کہ کیا اس طرح مسجد کی توسیع درست ہے؟

جواب لکھتے وقت مندرجہ ذیل باتوں کو ذہن میں ملحوظ رکھیں۔

(۱)       جس جگہ کو مسجد میں شامل کیا جا رہا ہے وہ عامۃ الناس کے لیے راستہ کے طور پر چھوڑی گئی ہے۔

(۲)       اس جگہ کے متبادل جو راستہ دیا جا رہا ہے مسجد کی انتظامیہ وغیرہ کا اس پر کوئی حق نہیں ہے۔

(۳)      لوگ اس متبادل راستہ پر خوش نہیں ہیں۔

(۴)      پہلا راستہ سیدھا ہے اور ٹریفک کے مسئلہ پر لوگوں کوکوئی مشکل پیش نہیں آتی۔ لیکن متبادل راستہ تنگ گلی پر ختم ہو تا ہے راستہ سیدھا نہیں رہتا۔ یا تو ٹریفک کے استعمال کے قابل ہی نہیں رہتا یا پھر مشکل ہو جاتا ہے۔

(۵)      سرکاری زمین اور خصوصاً راستہ پر ( یعنی راستہ کی جگہ پر) مسجد تعمیر کرنا کیا حکم رکھتا ہے؟

(۶)       اگر گاؤں والے راضی ہو بھی جائیں لیکن حکومت سے اجازت نامہ حاصل کرنے کے بغیر اس راستہ کی جگہ پر مسجد کی تعمیر کا کیاحکم ہے؟

(۷)      اگر حکومت اجازت دے بھی دے توپھر شریعت کی رُو سے تعمیر کیسی ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

صورتِ سوال سے ظاہر ہے کہ مسجد سے ملحقہ جنوبی طرف کافی وسیع جگہ خالی ہے جہاں راستہ کے علاوہ کوئی اور عمارت بھی کھڑی ہو سکتی ہے۔ بناء بریں احتیاطاً اربابِ حِلُّ و عقد(حکمرانوں) سے تصفیہ طلب اُمور کے بعد اور ممکنہ ضرورت کی صورت میں مسجد ہذا میں توسیع کا جواز ہے، بشرطیکہ راستہ سے گزرنے والوں کے لیے تنگی و تکلیف کا باعث نہ بنے۔

چنانچہ امام بخاری رحمہ اللہ  نے صحیح بخاری میں بایں الفاظ باب قائم کیا ہے:

’ بَابُ المَسجِدِ یَکُونُ فِی الطَّرِیقِ مِن غَیرِ ضَرَرٍ بِالنَّاسِ وَ بِهٖ قَالَ الحَسنُ وَ اَیُّوبُ وَ مَالِكٌ‘صحیح البخاری، قبل رقم الحدیث:۴۷۶

پھر قصہ ابی بکر رضی اللہ عنہ  سے استدلال کیا ہے کہ انھوں نے اپنے گھر میں مسجد بنائی ہوئی تھی۔ جس میں مذکور ہے کہ

’ فَابتَنٰی مَسجِدًا بِفَنَاءِ دَارِهٖ، فَکَانَ یُصَلِّی فِیهِ، وَ یَقرَأُ القُراٰنَ ‘صحیح بخاری، باب المسجد یکون فی الطریق من غیر…الخ،رقم:۴۷۶،مع فتح الباری:۱/۵۶۴

نیز متبادل جگہ اگر کسی کی شخصی ملکیت ہے تو اس کو ممکنہ توسیع میں شامل نہیں کیا جا سکتا، اور سرکاری جگہ کو مذکورہ بالاشرط کے ساتھ شامل کرنے کا جواز ہے۔سرکار کی حیثیت محض امین کی ہے۔ لیکن سوال کے بعض اجزء سے ظاہر ہوتا ہے کہ متبادل راستہ سے عامۃ الناس کو دقَّت کا سامنا کرنا ہو گا۔

اس بناء پر انتظامیہ کو چاہیے کہ پہلے لوگوں کو مطمئن کرے، ورنہ توسیع کا ارادہ ترک کردے ،مگریہ کہ مخالفین کی وجہِ مخالفت محض مذہبی عصبیت ہو تو اس کی پرواہ نہیں کرنی چاہیے۔

بہر صورت فیصلہ حقائق اور واقعات کی روشنی میں ہونا چاہیے، تاکہ عوام صحیح طور پر راستہ سے مستفید ہوسکیں۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ راستہ پہلا ہو یا دوسرا۔مقصد تو لوگوں کی سہولت ہے۔ (واﷲ ولی التوفیق)

  ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ حافظ ثناء اللہ مدنی

کتاب المساجد:صفحہ:187

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ