سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(186) اذان و جماعت کا اہتمام کرنے سے جگہ کا حکم

  • 24196
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-02
  • مشاہدات : 493

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

میں کرائے کی جگہ پر لکڑی فروخت کرنے کا کام کرتا ہوں اور وہاں ظہر اور عصر کی نماز ہم جماعت سے ادا کرتے ہیں اور اذان کہہ کر جماعت کراتے ہیں۔ایک دن کسی آدمی نے ہم سے کہا کہ جس طرح آپ اذان کہہ کر جماعت کراتے ہیں اس طرح یہ جگہ مسجد کے لیے مخصوص ہو جائے گی۔

 براہ مہربانی ہمیں آگاہ کیا جائے کہ جہاں ہم جماعت کراتے ہیں وہ تو کرایے کی جگہ ہے کیا وہ جگہ مسجد کے لیے مخصوص کرانا پڑے گی یا اسی طرح درست ہے؟ ہم وہاں صرف ظہر اور عصر کی نماز ادا کرتے ہیں باقی نمازیں گھر آکر مسجد میں ادا کرتے ہیں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

کسی جگہ محض اذان جماعت کا اہتمام کرنے سے وہ جگہ وقف نہیں ہوتی اور نہ وہ مسجد کے حکم میں ہوتی ہے۔ صحیح بخاری میں قصہ عتبان بن مالک رضی اللہ عنہما  میں ہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے گھر نوافل کی جماعت کرائی تھی۔ (صحیح البخاری،بَابُ إِذَا دَخَلَ بَیتًا یُصَلِّی حَیثُ شَاء َ أَو حَیثُ أُمِرَ وَلاَ یَتَجَسَّسُ،رقم:۴۲۴)اس پر شارح صحیح بخاری حافظ ابن حجر رحمہ اللہ رقمطراز ہیں:

’ وَ اِنَّ المَکَانَ المُتَّخَذَ مَسجِدًا مِنَ البَیتِ لَا یَخرُجُ عَن مِلكِ صَاحِبِهٖ۔‘(فتح الباری:۳؍۶۲)

یعنی ’’اس حدیث میں جملہ مسائل میں سے یہ بھی ہے کہ گھر کی جگہ میں سے کسی حصہ کو مسجد قرار دینے سے وہ مالک کی ملکیت سے خارج نہیں ہوتی۔ ‘‘

دوسرے مقام پر فرماتے ہیں: کہ جمہور کے نزدیک وقف اس وقت ثابت ہوتا ہے جب وقفیت(وقف شدہ چیز) کی تصریح ہو یا صیغہ متحمل ہو اور مالک کی نیت وقف کی ہو۔ (فتح الباری : ۵؍۳۹۹)

 جب کہ زیرِبحث مسئلہ میں دونوں چیزیں مفقود ہیں۔ اس لیے جائے مصلیٰ (نماز کی جگہ)مسجد کے حکم میں نہیں اور آپ کی نمازیں بلا تردد درست ہیں۔

  ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ حافظ ثناء اللہ مدنی

کتاب المساجد:صفحہ:186

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ