السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ہمارے گاؤں میں صرف ایک ہی مسجد ہے، جہاں تمام لوگ اکٹھے نماز پڑھتے ہیں، مسجد کی تعمیر کا کام مکمل ہو چکا ہے۔ بلکہ اضافی دو تین کمرے مسجد کی دائیں طرف، اور اسی طرح ایک کمرہ اور برآمدہ مسجد کی بائیں طرف ہے۔ جس میں بچے ناظرہ قرآن مجید، صبح کی نماز کے بعد گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ پڑھتے ہیں۔ دائیں طرف پر مین گلی، اور مسجد کا مین گیٹ ہے اور اسی طرف کمروں کے آگے خوبصورت پارک بنے ہوئے ہیں۔
اب صورت ِ حال یہ ہے کہ گاؤں کی دو تین لڑکیاں مدرسہ سے فارغ التحصیل ہوئی ہیں۔ جن میں عالِمہ اور فاضلہ بھی ہیں۔ لڑکیاں ما شاء اﷲ کافی ذہین اور خلوص کے ساتھ محنت کرنے والی ہیں۔
فی الوقت وہ بغیر کسی معاوضہ کے گاؤں کی بچیوں کو پڑھا رہی ہیں، اور انتہائی اچھے اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ اب ہمیں یہ مسئلہ درپیش ہے کہ
(۱) کیا مسجد کی بائیں طرف والے کمرے اور برآمدے کو ہم مدرسۃ البنات میں تبدیل کر سکتے ہیں؟ (۲)کیا مسجد کے نام پر جمع شدہ رقم اس تعمیر پر لگائی جا سکتی ہے؟ کیونکہ گاؤں والے مسجد کے نام پر چندہ دیتے ہیں او ر مسجد کی تعمیر الحمد لِلّٰہِ مکمل ہے۔ دوسری سرگرمیوں میں لوگ اتنی دلچسپی کا مظاہرہ نہیں کرتے۔(۳)کیا مسجد کی جمع شدہ رقم سے ان معلمات کی خدمت کی جا سکتی ہے، جو فی الوقت رضائے الٰہی کے لیے پڑھا رہی ہیں۔ بذاتِ خود انھوں نے کچھ مطالبہ نہیں کیا جب کہ مالی لحاظ سے وہ کچھ زیادہ مضبوط بھی نہیں ہیں۔ (۴) بچوں کو ناظرہ قرآن مجید پڑھانے والے حافظ صاحب کی خدمت انہی پیسوں سے کی جا سکتی ہے جب کہ گاؤں والے صرف تنخواہ کے نام پر اتنی زیادہ خدمت نہیں کرتے اور حافظ صاحب کی مالی حالت بھی انتہائی کمزور ہے کیونکہ وہ مقامی ہیں اور ہم ان کے حالات سے واقف ہیں جب کہ مسجد کے نام پر ہزاروں کے حساب سے رقم جمع ہو جاتی ہے۔ اﷲ تعالیٰ آپ کو جزائے خیردے۔
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
(۱) مسجد سے ملحقہ کمروں میں باپردہ صورت میں ’’مدرسۃ البنات‘‘ قائم کیا جا سکتا ہے۔ تعمیر مسجد سے مقصود چونکہ ذکر الٰہی ہوتا ہے، سو وہ حاصل ہے۔
(۲)مسجد کے لیے جمع شدہ رقم بوقت ِ ضرورت تعمیر ہذا پر صرف ہو سکتی ہے۔ صحیح مسلم میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہاسے مروی ہے کہ میں نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، کہ آپ نے فرمایا :
’یَا عَائِشَةُ لَولَا حِدثَانُ قَومِكِ بِالکُفرِ لَنَقَضتُ البَیتَ حَتَّی أَزِیدَ فِیهِ مِنَ الحِجرِ، فَإِنَّ قَومَكِ قَصَّرُوا فِی البِنَاءِ‘صحیح مسلم،بَابُ نَقضِ الکَعبَةِ وَبِنَاءِهَا،رقم:۱۳۳۳
اگر تیری قوم نئی نئی مسلمان نہ ہوئی ہوتی، تو میں بیت اﷲ کا خزانہ نکال کر فی سبیل اﷲ تقسیم کردیتا، اور بیت اﷲ کا دروازہ زمین کے ساتھ ملا دیتا، اور حجر کا کچھ حصہ بیت اﷲ میں داخل کردیتا۔ ‘‘
ہمارے شیخ محدث روپڑی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’بیت اﷲ کے خزانہ سے مراد وہ مال ہے، جو لوگ بیت اﷲ کی خاطر نذر دیا کرتے تھے۔ جیسے مساجد میں لوگ دیتے ہیں۔ یہ خزانہ بیت اﷲ میں اسی طرح دفن ہے۔ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب دیکھا کہ یہ بیت اﷲ کی حاجت سے زائد بیکار ہے، تو خیال ہوا کہ اس کو فی سبیل اﷲ تقسیم کردیا جائے۔ لیکن کفار چونکہ نئے نئے مسلمان ہوئے تھے، خطرہ تھا کہ وہ کہیں بدظن نہ ہوجائیں، اس لیے چھوڑ دیا۔‘‘(فتاویٰ اہلحدیث:323/1)
(۳)، (۴) فی الجملہ مُعلّمین اور مُعلّمات کی تنخواہوں کی ادائیگی بھی اس مَد سے ہو سکتی ہے، کیونکر یہ بھی کارِ خیر کا ایک حصہ ہے۔اور سابقہ حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ وقف میں تصرُّف ہو سکتا ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب