السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ایک کاٹن فیکٹری کے مالک نے اپنے مزدوروں کے لیے تقریباً ڈھائی مرلہ 2È میں مسجد بنوائی تھی، اس وقت اسے کاٹن فیکٹری کی لیبر اوراس کا عملہ ہی ملحوظِ خاطر تھا۔ اس لیے اس نے فیکٹری کے ایک کونہ میں آبادی سے ہٹ کر الگ ایک مسجد بنوائی۔ اب وہ آدمی اس کاٹن فیکٹری کے پلاٹ بناء کر جگہ فروخت کر رہا ہے۔ اس مسجد کی آباد کاری کے لیے کیا مسجد اسی جگہ رہنی چاہیے یا وہاں سے دوسری جگہ آئندہ جو آبادی ہونیوالی ہے اس میں منتقل کرلی جائے۔ اگر اسی جگہ مسجد رہے تو اس کی آبادی نہ ہونے کی وجہ سے مسجد مذکورہ بے آباد ہو گی۔ بَیِّنُوا تُوجروا۔
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
بوقت ِ ضرورت مسجد دوسری جگہ منتقل ہو سکتی ہے۔ صحیح مسلم میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ میں نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: کہ اگر تیری قوم نئی نئی مسلمان نہ ہوئی ہوتی، تو میں بیت اﷲ کا خزانہ نکال کر فی سبیل اﷲ تقسیم کردیتا، اور بیت اﷲ کا دروازہ زمین کے ساتھ ملا دیتا، اور حجر کا کچھ حصہ بیت اﷲ میں داخل کردیتا۔ (صحیح مسلم،بَابُ نَقضِ الکَعبَۃِ وَبِنَائِہَا،رقم:۱۳۳۳) بیت اﷲ کے خزانہ سے مراد وہ مال ہے، جو لوگ بیت اﷲ کی خاطر نذر کیا کرتے تھے۔ جیسے مساجد میں لوگ دیتے ہیں۔ یہ خزانہ بیت اﷲ میں اسی طرح دفن تھا۔ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب دیکھا کہ یہ بیت اﷲ کی حاجت سے زائد اور بے کار ہے، تو خیال ہوا کہ اس کو فی سبیل اﷲ تقسیم کردیا جائے۔ لیکن کفار چونکہ نئے نئے مسلمان ہوئے تھے، خطرہ تھا کہ کہیں وہ بدظن نہ ہوجائیں۔ اس لیے چھوڑ دیا۔ اس سے معلوم ہوا کہ جب وقف کی حالت ایسی ہوجائے کہ ضائع ہوتی نظر آئے تو اس کی کوئی ایسی صورت بنانی چاہیے۔ جس سے وہ ضائع نہ ہو۔
’’کشف القناع عن متن الاقناع‘‘(۴۷۱/2) میں ہے کہ امام احمد رحمہ اللہ نے تبدیل وقف پر اس بات سے استدلال کیا ہے کہ حضرت عبد اﷲ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے جامع مسجد کھجوروں کی تجارت گاہ سے بدل دی۔ یعنی بدل کر کوفہ میں دوسری جگہ لے گئے اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ شارعِ عام تنگ ہو گئی، تو انھوں نے مسجد کا کچھ حصہ راستہ میں ڈال دیا۔ ملاحظہ ہو! فتاویٰ ابن تیمیہ (۲۸۸/3)
غرض اس قسم کے تصرُّفات اوقاف اور خیرات میں درست ہیں، جن سے وہ ضائع نہ ہوں، بلکہ بڑھیں یا محفوظ ہو جائیں۔ بلکہ حنفیہ کا بھی آخری فتویٰ اسی پر ہے۔ چنانچہ ردّ المختار (۴۰۷/3) میں اس کی تصریح کی ہے اور امام محمد رحمہ اللہ نے تو یہاں تک کہہ دیا ہے کہ اگر وقف بے کار ہو جائے، تو اس کے اصل مالک یا وارثوں کی ملک میں ہو جائے گا۔ خلاصہ یہ کہ وقف کی غرض پر مَدار ہے۔ حتی الوسع (ممکن حد تک) اس کو ضائع نہ ہونے دیا جائے۔فتاویٰ اہلِ حدیث (۳۲۳/1۔۳۲۴) بایں صورت مسجد ہذا کو وہاں منتقل کردیا جائے،جہاں نمازوں کے لیے مفید تر ثابت ہو سکے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب