السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
اعتکافِ مسنون میں معتکف کے لیے غسلِ واجب کے لیے مسجد سے خروج جائز ہے یا نہیں؟ ۔ایسے خروج میں اعتکاف پر کیا اثر پڑتا ہے؟ ۔۔۔آیا سابقہ اعتکاف بھی فاسد ہو جاتا ہے یا محض خروج کے وقت کا؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
الجواب بعون الوھاب: شرع میں اعتکاف، مخصوص شخص کا، مخصوص صفت کے ساتھ مسجد میں ٹھہرے رہنے کا نام ہے۔ قرآن مجید میں﴿وَاَنتُم عـٰکِفونَ فِی المَسـٰجِدِ﴾ (ظرفیت) کا تقاضا بھی یہی ہے کہ اعتکاف کے لیے مسجد کا وجود شرط ہے۔ اس بناء پر بلا حاجاتِ ضروریہ (پیشابِ پاخانہ، غسلِ جنابت، وضو وغیرہ) مسجد سے نکلنا ناجائز ہے۔
صحیح بخاری میں ایک باب بایں الفاظ منعقد ہوا ‘‘باب غسل المعتکف‘‘
فتح الباری میں "اَی هٰذَا بَابٌ فِی بَیَانِ غُسْلِ الْمُعْتَکِفِ یَعْنی یَجُوزُ وَلَمْ یَذْکُرِ الْحُکْمَ اِکْتِفَاء ً بِمَافِی الْحَدِیْثِ"یعنی ’’یہ باب اعتکاف بیٹھنے والے کے لیے اعضاء کے دھونے کے جواز کا ہے۔ اور جو کچھ حدیث میں ہے، اسی پر اکتفاء کرتے ہوئے ترجمہ میں حکم بیان نہیں ہوا۔‘‘
عمدۃ القاری میں ہے کہ:‘‘معتکف کے لیے اعضاء کو دھونا جائز ہے۔‘‘
قسطلانی میں برماوی اور کرمانی، دونوں سے نقل کیا گیا ہے کہ’’لفظ’’غسل‘‘ غین کے فتحہ (زبر) کے ساتھ ہے، ضمہ (پیش) کے ساتھ نہیں‘‘ ۔۔پھر علامہ قسطلانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:یونینی نسخہ میں ابوذر رضی اللہ عنہ کی روایت میں رفع (پیش) بھی ثابت ہے۔
مولانا وحید الزماں رحمۃ اللہ علیہ نے تیسیر الباری میں تبویب ہذا کا ترجمہ یوں کیا ہے:‘‘اعتکاف والا سر یا بدن دھو سکتا ہے‘‘ ۔مصنف نے اس ترجمہ کے تحت جو حدیث نقل کی ہے، اس کے الفاظ یہ ہیں:
« کَانَ النَّبِیُّ ﷺ یُبَاشِرُنِی وَاَنَا حَائِضٌ وَکَانَ یُخْرِجُ رَاْسَهُ مِنَ الْمَسْجِدِ وَهُوَ مُعْتَکِفٌ فَاَغْسِلُهُ وَاَنَا حَائِضٌ» صحیح البخاری،بَابُ غَسْلِ المُعْتَکِفِ، رقم:۲۰۳۰، ۲۰۳۱ (۸)
‘حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:) نبی اکرم ﷺمیرے جسم کے ساتھ جسم لگاتے اور میں حیض والی ہوتی تھی … آپ ﷺاپنا سر مبارک اعتکاف کی حالت میں مسجد سے (گھر اور مسجد کے درمیان ایک کھڑکی میں سے) باہر نکالتے تو میں اسے دھوتی اور میں حیض والی ہوتی تھی‘‘
صحیح بخاری کی ایک دوسری تبویب یوں ہے: ’باب الحائض ترجل راس المعتکف‘
یعنی ’’حائضہ عورت کے لیے معتکف کے سر میں کنگھی کرنا جائز ہے۔‘‘
پھر بسندہ حدیث بیان کرتے ہیں:
« کَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَ سَلَّمَ یُصْغِی إِلَیَّ رَاْسَهُ وَهُوَ مُجَاوِرٌ فِی الْمَسْجِدِ ، فَاُرَجِّلُهُ وَاَنَا حَائِضٌ»صحیح البخاری،بَابُ الحَائِضِ تُرَجِّلُ رَأْسَ المُعْتَکِفِ،رقم:۲۰۲۸
(حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں) نبی اکرم ﷺمیری طرف اپنا سر مبارک جھکاتے تو میں آپﷺ کو کنگھی کرتی، اس حالت میں کہ میں حائضہ ہوتی تھی۔‘‘
حدیث ہذا کے تحت حافظ ابن حجر رحمہ اللہ رقم طراز ہیں:‘‘اس حدیث میں کنگھی کے ساتھ درج ذیل امور کا بھی جواز ہے۔ صفائی اختیار کرنا، خوشبو لگانا، غسل کرنا، بال منڈانا، زینت اختیار کرنا۔‘‘
ایک تیسری تبویب مصنف نے بایں الفاظ قائم کی ہے:’’وَکَانَ لَا یَدْخُلُ البَیْتَ اِلَّا لِحَاجَةٍ‘‘
جب کہ صحیح مسلم میں ’’حاجتہ الانسان‘‘ کے الفاظ ہیں۔ امام زہری رحمہ اللہ نے’’حاجۃ‘‘ کی تفسیر پیشاب، پاخانہ کے ساتھ کی ہے۔ البتہ دیگر علماء نے بعض اور مستثنیات کا بھی ذکر کیا ہے، اگرچہ وہ مختلف فیہ ہیں۔
المجموع میں ہے: ’’جائز ہے کہ معتکف اپنا سر اور پاوں مسجد سے باہر نکالے یا طبعی حاجات کے لیے مسجد سے نکلے۔ تو اس حدیث کی بناء پر اعتکاف باطل نہیں ہو گا۔ اور اگر بلاعذر کے مسجد سے نکل گیا تو اعتکاف باطل ہے۔ اس لیے کہ اس نے وہ فعل کیا ہے جو اعتکاف کے منافی ہے، وہ ہے مسجد میں ٹھہرے رہنا‘‘
لیکن جہاں تک محض ٹھنڈک حاصل کرنے کے لیے غسل کا تعلق ہے تو یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ آج تک کسی نے غیر واجب غسل کو مسجد سے نکل کر کرنے کے جواز کا فتویٰ دیا ہو یا وہ اس کا قائل ہو، لہذا جواز کی بات ناممکن نظر آتی ہے۔ اگر کوئی ایسا کر گزرے تو اس سلسلہ میں مغنی المحتاج میں تفصیل موجود ہے۔
جس کا ماحصل یہ ہے کہ: اگر یہ اعتکاف نفلی ہے تو اعتکاف کا پہلا جزء باطل نہیں ہو گا۔ اور اگر یہ واجب ہے جس میں تتابع شرط ہے تو یہ باطل ہے، نئے سرے سے پھر اعتکاف کرنا پڑے گا۔ اور اگر وجوب کے باوجود تتابع شرط نہیں تو پہلا اعتکاف باقی ہے۔واضح رہے کہ مسجد کے اندر رہ کر غسل ٹھنڈک میں کوئی حرج نہیں۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب