السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
اگر آدمی کو رات کو احتلام ہو جائے، سردی کی وجہ سے غسل نہ کر سکے اور اذان کے وقت غسل کرے۔ گرم پانی موجود بھی ہے۔ مثلاً رات کے ۱۲ بجے غسل کی حاجت پیش آئی۔ اذانِ صبح کا وقت ۳۵:۵ ہے۔ بارہ بجے سے پانچ بجے تک کے وقت میں اگر موت آجائے تو آدمی کس حال میں اٹھایا جائے گا؟پاکی حالت میں یا ناپاکی کی حالت میں؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
حالت احتلام میں مرنے والا طاہر اٹھے گا۔ صحیح حدیث میں ہے:’ إِنَّ المُؤمِنُ لَا یَنجُسُ‘(صحیح البخاری،بَابٌ: الجُنُبُ یَخْرُجُ وَیَمْشِی فِی السُّوقِ وَغَیْرِہِ ،رقم:۲۸۵) اصلاً قابلِ اعتبار طہارت عقیدہ کی ہے۔ احتلام کی ناپاکی صرف ظاہری ،حکمی اور عارضی ہے، جو غسلِ میت وغیرہ سے زائل ہو جاتی ہے۔ قصۂ حنظلہ رضی اللہ عنہ ’’غسیل الملائکۃ‘‘ بھی اس کا مؤید(تائید کرنے والا) ہے ۔ موت تو انسان کو کسی بھی وقت آسکتی ہے۔ جلدی آئے یا بدیر۔ ویسے بھی شرعاً غسلِ جنابت کو مؤخر کرنے کا جواز ہے۔صحیح حدیث میں قصۂ ابی ہریرۃ رضی اللہ عنہ اس امر کی واضح دلیل ہے۔ ملاحظہ ہو!’’صحیح بخاری‘‘ وغیرہ۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب