السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیاوضوکرنے سے پہلے ’’بِسمِ اللّٰہِ ‘‘ پڑھنا لازم ہے۔ غسلِ جنابت یا عام غسل کے لیے کپڑے اتار دینے کے بعد بسم اﷲ پڑھنے کا کیا حکم ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
کوشش کرنی چاہیے کہ کپڑے اتارنے سے پہلے وضوکر لیا جائے۔ کپڑے اتار کر بھی بسم اﷲ کا جواز ہے بشرطیکہ جگہ نجس نہ ہو۔ حدیث میں ہے:
’یَذکُرُ اللّٰهَ عَلٰی کُلِّ اَحیَانِهٖ‘ صحیح مسلم،بَابُ ذِکرِ اللهِ تَعَالَی فِی حَالِ الجَنَابَةِ وَغَیرِهَا ،رقم:۳۷۳، بحواله فتح الباری:۱/۴۰۸، سنن ابن ماجه،رقم:۳۰۲
بصورت ِ دیگر دل میں پڑھ لی جائے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی ’’صحیح‘‘ میں بایں الفاظ باب قائم کیا ہے۔
’ بَابُ التَسمِیَةِ عَلٰی کُلِّ حَالٍ وَ عِندَ الوَقَاعِ ۔‘
’’یعنی تسمیہ ہر حالت میں پڑھنی چاہیے اور جماع کے وقت بھی۔‘‘
پھر دعائے جماع’بِسمِ اللّٰهِ، اللَّهُمَّ جَنِّبْنَا الشَّیْطَانَ، وَجَنِّبِ الشَّیْطَانَ مَا رَزَقْتَنَا…‘ صحیح البخاری،بَابُ مَا یَقُولُ إِذَا أَتَی أَهْلَهُ،رقم:۶۳۸۸ سے اولویت کی بناء پر ان کا استدلال ہے۔’’فتح الباری‘‘میں ہے :
’ لٰکِن یُستَفَادُ مِن بَابِ الاَولٰی، لِاَنَّهٗ اِذَا شَرَعَ فِی حَالَةِ الجِمَاعِ وَهِیَ مِمَّا اَمَرَ بِهٖ بِالصَمتِ فَغَیرُهُ أَولٰی ۔‘(۲۴۲/1)
تاہم فتاویٰ اسلامیہ (۲۱۹/1) میں شیخ ابن عثیمین نے ترجیح اس بات کو دی ہے کہ ایسی حالت میں ’’بِسمِ اللّٰہِ‘‘ صرف دل ہی دل میں پڑھنی چاہیے۔ وجہِ استدلال یہ ہے کہ تسمیہ راجح قول کے مطابق واجبات سے نہیں بلکہ مستحبات سے ہے، لیکن شاہ ولی اﷲ صاحب نے ’’حجۃ اللہ البالغہ‘‘ میں تسمیہ کو رکن یا شرط قرار دیا ہے۔ مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو! (مرعاۃ المفاتیح :۲۷۵/1۔۲۷۶)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب