السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
عموماً یہی سنا ہے کہ نیل پالش لگی ہو تو وضونہیں ہوتا ، وضونہ ہوا تو نماز نہیں ہوتی۔ لیکن نیا مسئلہ یہ سنا ہے کہ جس طرح دیوار پر پینٹ کیا جائے تو وہ دیوار کا حصہ بن جاتا ہے اسی طرح نیل پالش ناخن پر لگانے سے اس کا حصہ بن جاتی ہے لہٰذا وضوہو جاتا ہے۔ قرآن و سنت کی روشنی میں وضاحت کریں۔
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
نیل پالش لگی ہو تو وضونہیں ہوتا۔ قرآن میں ہے:﴿فَاغسِلُوا وُجُوھَکُم وَ اَیْدِیکُم﴾ (المائدۃ:۶)’’وضومیں اپنے ہاتھ اور پاؤں کو دھویا کرو۔‘‘
انگلیوں کا خلال اس لیے کیا جاتا ہے کہ تَری کا اثر ہر عضو پر مکمل طور پر پہنچ جائے۔ ’’صحیح بخاری‘‘ کے ’’ترجمۃ الباب‘‘ میں ہے۔ ابنِ سیرین وضوکے وقت انگوٹھی کی جگہ کو دھوتے تھے۔ (صحیح البخاری، باب غسل الأَعقاب،قبل رقم الحدیث:۱۶۵) پالش ناخن کو دیوار کے پینٹ پر قیاس کرنا، قیاس مع الفاروق(بے جوڑ قیاس) ہے۔ ظاہر ہے پینٹ کی حیثیت مستقل ہے جب کہ موجودہ عمل وقتی اور عارضی ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب