السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ نے ۴۰ سال تک عشاء کے وضوسے فجر کی نماز ادا کی تھی؟
علامہ ابن کثیر رحمہ اللہ اپنی شہرٔ آفاق تصنیف ’’البِدَایَة وَالنِّھَایَة‘‘ میں رقمطراز ہیں کہ: ’’ آپ چالیس سال تک عشاء کے وضوسے صبح کی نماز ادا کرتے رہے۔(البدایۃ والنھایۃ:۱۰/۵۴۶)
جب کہ علامہ ناصر الدین البانی اپنی کتاب’’نمازِ نبوی‘‘ میں فرماتے ہیں:’’امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ چالیس سال تک عشاء کے وضوسے فجر کی نماز ادا کرتے رہے۔ اس کی کوئی اصل نہیں۔‘‘
اس کے علاوہ علامہ فیروز آبادی نے ’’الرَدُّ عَلَی المُعتَرِضِ‘‘ میں اس کا تجزیہ پیش کرتے ہوئے اس کو واضح جھوٹ قراردیاہے۔(نمازِ نبوی،ص:۱۲۵)
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے بارے میں قصہ ہذا بالکل من گھڑت ہے۔ اس کی کوئی اصل نہیں۔ مولانا عبدالحی مرحوم نے بھی قصہ ہذا کو ’إِقَامَۃُ الحُجَّۃ‘ میں ذکر کیا ہے، لیکن بے بنیاد ہے۔ ویسے بھی انسانی ضروریات کے پیشِ نظر اس کا وقوع ناممکنات میں سے ہے۔ نبیﷺ سے صحیح مسلم وغیرہ میں یہ ثابت ہے کہ آپ نے ایک دفعہ ایک وضوسے پانچ نمازیں ادا کی تھیں۔ اس پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے استعجاب(تعجب) کا اظہار کیا تو آپ نے فرمایا کہ میں نے اس فعل کو جان بوجھ کر کیا ہے۔ مقصود امت پر اظہار سہولت تھا۔
حضرت عبد اﷲ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے آپﷺ نے فرمایا تھا:کہ ’’تیری جان کا تجھ پر حق ہے، تیری آنکھ کا تجھ پر حق ہے اور تیرے اہل خانہ کا تجھ پر حق ہے۔ قصہ ہذا اس کے منافی ہے۔ پھر تین وہ اشخاص جن میں سے ایک نے کہا تھا کہ میں ہمیشہ روزہ رکھوں گا، دوسرے نے کہا کہ میں نکاح نہیں کروں گا اور تیسرے نے کہاکہ میں رات بھر نہیں سوؤں گا ۔ نبیﷺ نے ان کے اس عزمِ نیکی کو پسند نہیں فرمایا۔ جواباً فرمایا: میں سب سے زیادہ متقی پرہیز گار ہوں۔میں سوتا بھی ہوں اور جاگتا بھی۔ روزے رکھتا بھی ہوں اور چھوڑتا بھی۔ اس طرح میں نے کئی نکاح بھی کیے ہیں۔’ فَمَن رَغِبَ عَن سُنَّتِی فَلَیسَ مِنِّی‘صحیح البخاری،بَابُ التَّرغِیبِ فِی النِّکَاحِ ،رقم:۵۰۶۳
’’ جو میرے طریقہ سے بے رغبتی کرے وہ مجھ سے نہیں۔‘‘
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مختلف فرائض کی ادائیگی کے لیے آپﷺ نے اوقاتِ کار کو تقسیم کیا ہوا تھا۔ بفرضِ صحت امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا قصہ صریحاً اس حدیث کے خلاف ہے۔ اس طرح سے کئی قسم کے حقوق کا ضیاع(ضائع ہونا) لازم آتا ہے جو عقل و دانش کے منافی فعل ہے۔
لہٰذا امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے بارے میں ہمارا حسنِ ظن یہ ہے کہ وہ اس قسم کے وضعی اور من گھڑت قصوں سے مُبَرَّا تھے۔ ’’علی رؤس الاشہاد‘‘(واضح طور پر) ان کا اعلان ہے۔
’ إِذَا صحَّ الحَدِیثُ فَهُوَ مَذهَبِی ‘ (میزان الکبریٰ)
’’صحیح حدیث ہی میرا مسلک ہے۔‘‘
توقع ہے کہ اصلاً امام صاحب کا مسلک و عمل بھی اسی کے مطابق ہو گا جو کچھ احادیث ِ بالا میں ذکر ہوا ہے۔(واﷲ تعالیٰ أعلم و علمہ أتم)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب