سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(115) اذان کے بعد کی دعا

  • 24125
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-02
  • مشاہدات : 726

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

شرح معانی الآثار میں امام طحاوی رحمہ اللہ اذان کے بعد کی دُعا( اللهم رب هذه الدعوة… الخ) کو اس سند کے ساتھ نقل کرتے ہیں: حدثنا عبد الرحمن بن عمرو الدمشقی قال ثنا علی بن عباس قال ثنا شعیب بن ابی حمزۃ عن محمد ابن المنکدر عن جابر بن عبداللہ الخ (ملاحظہ فرمائیں: کتاب الصلوٰۃ:باب ما یستحب للرجل ان یقولہ إذا سمع الاذان، مترجم کتاب کی حدیث نمبر ۸۲۱)

اس روایت میں عبدالرحمن بن عمرو دمشقی کے علاوہ باقی سب راوی صحیح بخاری کی روایت کے ہیں۔ اس روایت میں محمد سے پہلے سیدنا کے الفاظ ہیں۔ کیا یہ اضافہ صحیح ہے اور مزید یہ کہ عبدالرحمن بن عمرو دمشقی صحاحِ ستہ کی کس کتاب کے راوی ہیں اور ان سے کس باب میں کوئی روایت آئی ہے ؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

شرح معانی الآثار میں مذکورہ حدیث میں سیدنا کا اضافہ شاذ مدرج ہے۔ علامہ البانی فرماتے ہیں:

’ وہی شاذ ۃ مدرجۃ ظاہرہ الإدراج ‘ ( إرواء الغلیل:۱/۲۶۱)

اس روایت کے راوی عبدالرحمن بن عمرو بن عبداللہ بن صفوان النصری ابوزرعہ دمشقی کے بارے میں تقریب میں ہے: ثقۃ حافظ مصنف یعنی ثقہ حافظ اورصاحب ِتصانیف ہے۔ اور سنن أبوداؤد(سنن ابوداود،کتاب الفتن والملاحم، باب فی تعظیم قتل المؤمن ،رقم:۳۷۲۴)میں اس کی روایت موجودہے۔ ائمہ فن نے اس پر /د (ابوداؤد) کی علامت دی ہے جو اس امر کی واضح دلیل ہے

  ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ حافظ ثناء اللہ مدنی

كتاب الطہارۃ:صفحہ:144

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ