السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
بغیر وضوکے آدمی قرآن پاک پڑھ سکتا ہے یا نہیں؟ اگر پڑھ سکتا ہے تو آیت﴿ لَا یَمَسُّهٗ اِلَّا المُطَهَّرُونَ﴾ کا کیا مفہوم ہے؟ اگر یہ آیت جُنبی کے بارے میں ہے تو دینی مدارس میں قران پاک بچے پڑھتے پڑھتے بار بار پیشاب کرنے کے لیے جاتے ہیں کیا ان پر وضولازمی ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
’’سنن ابی داؤد‘‘ میں حضرت علی رضي الله عنه سے مروی ہے :
’ وَ لَم یَکُن یَحجُبُهٗ، أَو قَالَ: یَحجُرُهٗ عَنِ القُرآنِ شَیئٌ لَیسَ الجَنَابَةِ ۔‘ سنن أبی داؤد،بَابٌ فِی الْجُنُبِ یَقْرَأُ الْقُرْآنَ،رقم:۲۲۹
یعنی ’’نبیﷺ کو جنابت کے ما سوا کوئی چیز قراء تِ قرآن سے مانع نہیں تھی۔‘‘
صاحب ’’عون المعبود‘‘ حدیث ھٰذا کی تشریح کرتے ہوئے رقمطراز ہیں:
’ وَالحَدِیثُ یَدُلُّ عَلٰی جَوَازِ القِرَاءَةِ لِلمُحدِثِ بِالحَدَثِ الأَصغَرِ.وَهُوَ مَجمَعٌ عَلَیهِ۔ لَم نَرَ فِیهِ خِلَافًا عَلٰی عَدَمِ الجَوَازِ لِلجُنُبِ۔ وَ قَد وَرَدَت أَحَادِیثُ فِی تَحرِیمِ قِرَاءَةِ القُراٰنِ لِلجُنُبِ، فِی کُلِّهَا مَقَالٌ ، لٰکِنَّ تَحصُلُ القُوَّةُ بِانضِمَامِ بَعضِهَا بِبَعضٍ لِأَنَّ بَعضَ الطُّرُقِ لَیسَ فِیهِ شَدِیدُ الضُّعفِ، وَهُوَ یَصلُحَ أَن یَتَمَسَّكَ بِهٖ۔‘
یعنی ’’یہ حدیث اس بات پر دال ہے کہ حدثِ اصغر( بے وضوئ) کی حالت میں قراء ۃ جائز ہے۔ مسئلہ ہذا میں ہمیں کسی کا خلاف معلوم نہیں ہو سکا۔ یہ حدیث اس پر دال ہے کہ جُنبی کے لیے قراء ۃ ناجائز ہے۔کئی ایک احادیث جُنبی کی حرمتِ قراء ۃ کے بارے میں وارد ہیں۔ سب میں مقال ہے لیکن بعض کے بعض سے انضمام ( ملانے) کی شکل میں قوت حاصل ہوتی ہے۔ کیونکہ بعض طُرق میں زیادہ ضعف نہیں۔ وہ لائقِ عمل اور قابلِ تمسک ( قابلِ حجت)ہیں۔‘‘
’’فتح الباری‘‘ (۱/۴۰۸) میں ہے: ’ وَالحَقُّ أَنَّهٗ مِن قَبِیلِ الحَسَنِ یَصلُحُ لِلحُجَّةِ‘
یعنی ’’حق بات یہ ہے کہ حدیث مذکور حسن کے قبیل سے ہے اور قابلِ حجت ہے۔‘‘
نیز ’’صحیح بخاری‘‘ کی تبویب ’’بَابُ قِرَائَة القُراںِ بَعدَ الحَدَثِ‘‘ وغیرہ میں بھی حدثِ اصغر کی صورت میں بلا وضوجوازِ قراء تِ قرآن کی طرف اشارہ ہے ۔
اور آیت کریمہ﴿لَا یَمَسُّهٗ اِلَّا المُطَهَّرُونَ﴾ کی تفسیر میں کئی قول ہیں۔ ایک قول کے مطابق﴿لَا یَمَسُّهٗ اِلَّا المُطَهَّرُونَ﴾میں ضمیر کا مرجع لوح محفوظ ہے اور جملہ خبریہ ہے۔ دوسرا قول یہ ہے کہ ﴿المُطَهَّرُونَ﴾ سے مراد بنی آدم ہیں ’’ ہٗ ‘‘ ضمیر کا مرجع مصحف ہے ۔ جملہ خبریہ بمعنی ’’ نہی‘‘ ہے۔ اس دوسری تفسیر کی بناء پر بلاطہارت ’’مَسِّ مصحف‘‘ (قرآن کو ہاتھ لگانا) ناجائز ہوگا۔ بہر حال آیت ہذا محتملِ وَجہَین(دونوں وجوہ کا احتمال رکھتی)ہے۔ مانعین(منع کرنے والے) کا استدلال رسول اﷲﷺ کی اس چٹھی سے ہے جو عمرو بن حزم رضي الله عنه کو لکھ کر دی تھی جب کہ انھیں اہل یمن کی طرف بھیجا تھا۔ ’’دار قطنی‘‘ میں ہے :’ اَنَّ النَّبِیَّ ﷺ کَتَبَ اِلَی الیَمنِ کِتَابًا، وَ کَانَ فِیهِ:لَا یَمَسُّ القُرانَ إِلَّا طَاهِرٌ۔‘ سنن الدارمی،بَابُ لَا طَلَاقَ قَبْلَ نِکَاحٍ،رقم:۲۳۱۲،سنن الدارقطنی،بَابٌ فِی نَهْیِ الْمُحْدِثِ عَنْ مَسِّ الْقُرْآنِ،رقم:۴۳۷
’’ نبیﷺ نے اہلِ یمن کو خط لکھا۔ اس میں مذکور تھا صرف طاہر انسان قرآن کو مَسّ کرے۔‘‘
حدیث ہذا سند کے لحاظ سے اگرچہ متکلم فیہ ہے لیکن حافظ ابن عبد البر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’ إِِنَّهٗ أَشبَهَ المُتَوَاتِرِ فِی مَجِیئِهٖ لِتَلَقِّی النَّاسِ لَهٗ بِالقُبُولِ ‘
(یہ متواتر کے مشابہ ہے کیونکہ عوام میں اسے درجۂ قبول حاصل ہے ) یعقوب بن سفیان کا بیان ہے کہ اس سے زیادہ صحیح خط کا علم مجھے نہیں ہو سکا۔
کیونکہ اصحاب رسول اﷲ رضی اللہ عنہم اور تابعین رحمهما الله اسی کی طرف رجوع کرتے تھے اور اپنی آراء کو ترک کردیتے۔ نیز عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ اور زہری نے بھی اس خط کی صحت کی شہادت دی ہے۔
علامہ شوکانی رحمہ اللہ ’’نیل الأوطار‘‘(۱/۲۳۶ )میں فرماتے ہیں:
’ وَالحَدِیثُ یَدُلُّ عَلٰی أَنَّهٗ لَا یَجُوزُ مَسُّ المُصحَفِ إِلَّا مَن کَانَ طَاهِرًا ۔‘
یعنی حدیث ہذا اس بات پر دال ہے کہ قرآن کو صرف وہی شخص چھو سکتا ہے جو طاہر ہو۔
واضح ہو کہ شرع میں طہارت کے چار اطلاقات ہیں:
1 اوّلاً: مومن بمقابلہ کافر۔قرآن میں ہے: ﴿اِنَّمَاالمُشرِکُونَ نَجَسٌ﴾( مشرکین پلید ہیں) حدیث میں ہے: ’ «اَلمُؤمِنُ لَا یَنجُس»’’مومن نجس (پلید)نہیں ہوتا۔‘‘صحیح البخاری،بَابٌ: الجُنُبُ یَخْرُجُ وَیَمْشِی فِی السُّوقِ …،رقم:۲۸۵
2 ثانیاً : حَدَثِ اکبر یعنی جنابت وغیرہ سے طہارت حاصل کرنا۔ قرآن میں ہے:﴿وَ اِن کُنتُم جُنُبًا فَاطَّهَّرُوا﴾
3 ثالثًا: حدثِ اصغر، خروجِ ریح وغیرہ سے وضوکرنا۔ حدیث میں ہے: ’دَعهُمَا فَاِنِّی اَدخَلتُهُمَا طَاهِرَتَینِ‘صحیح البخاری،بَابُ إِذَا أَدْخَلَ رِجْلَیْهِ وَهُمَا طَاهِرَتَانِ،رقم:۲۰۶
4 رابعاً: وہ شخص جس کے بدن پر نجاستِ حِسِّی ہو حُکمِی نہ ہو۔ (مذکورہ آیت کی تفسیر میں) قاضی شوکانی رحمہ اللہ کا کہنا ہے کہ جس کے ہاں مشترک لفظ کا جملہ اس کا (کئی) معانی پر اطلاق جائز ہے۔ اس نے یہاں جمیع معانی پر محمول کیا ہے۔میری رائے میں مشترک (لفظ) چونکہ مجمل ہے لہٰذا بیان کے بغیر اس پر عمل نہ کیا جائے۔ ’’داؤد الظاہری‘‘ کے سوا علماء کا اجماع ہے کہ حدثِ اکبر میں مسِّ مصحف ناجائز ہے اور حدثِ اصغر میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما ، شعبی، ضحّاک، زید بن علی اور داؤد رحمتہ اللہ علیہم جواز کے قائل ہیں انتہی۔’’مرعاۃ المفاتیح‘‘(۱/۳۰۶) میں ہے:
’ وَ قَالَ قَاسِمٌ وَ أَکثَرُ الفُقَهَاءِ ، وَمِنهُمُ الأَئِمَّةُ الأَربَعَةُ: لَا یَجُوزُ. قُلتُ: القَولُ الرَّاجِحُ عِندَنَا هُوَ قَولُ اَکثِرِ الفُقَهَاءِ. وَهُوَ الَّذِی یَقتَضِیهِ تَعظِیمُ القُراٰنِ، وَ إِکرَامُهٗ۔ وَالمُتَبَادِرُ عَن لَفظِ’’طَاهِرٍ‘‘ فِی هٰذَا الحَدِیثِ، وَ هُوَ طَاهِرٌ عَنِ الحَدَثِ الأَصغَرِ: أَی المُتَوَضِّیُٔ وَ هُوَ الفَردُ الکَامِلُ لِلطَّاهِرِ‘
یعنی قاسم اور اکثر فقہاء جن میں ائمہ اربعہ بھی شامل ہیں ان کا مسلک ہے کہ حدثِ اصغر کی صورت میں مسِّ مصحف ناجائز ہے، اور میں کہتا ہوں کہ ہمارے نزدیک راجح اور مختار قول اکثر فقہاء کا ہے۔ قرآنِ کریم کی تعظیم و تکریم کا تقاضا بھی یہی ہے۔ اس حدیث میں لفظِ طاہر سے مراد متبادر الی الذہن (جو بات فوراً ذہن میں آتی ہے)حدثِ اصغر سے طہارت حاصل کرنا ہے۔ یعنی باوضوہونا، طاہر کا فرد کامل وہی ہے۔‘‘
بچوں کو بلا وضوقرآن مجید پکڑنے کی امام مالک رحمہ اللہ سے اجازت منقول ہے۔ چنانچہ’’بدایۃ المجتہد‘‘ (جزء اوّل ص:۴۳) پر ہے:
’ وَرَخَّصَ مَالِكٌ لِلصِّبیَانِ فِی مَسِّ الصُّحُفِ عَلٰی غَیرِ طُهرٍ۔ لِأَنَّهُم غَیرُ مُکَلَّفِینَ۔‘
یعنی ’’امام مالک رحمہ اللہ نے بچوں کو مسِّ مصحف کی بلا وضوچھونے کی اجازت دی ہے اس لیے کہ وہ غیر مکلف ہیں۔‘‘
نیز حدیث میں ہے: ’ رُفِعَ القَلَمُ عَن ثَلَاثٍ، وَ عَنِ الصَّبِیِّ حَتّٰی یَحتَلِمَ ‘سنن ابی داؤد،بَابٌ فِی الْمَجْنُونِ یَسْرِقُ أَوْ یُصِیبُ حَدًّا،رقم:۴۴۰۱
اس سے معلوم ہوا کہ بچے طہارت کے مکلف نہیں ہیں۔ بلاوضوقرآن پکڑ سکتے ہیں۔
خلاصۂ کلام یہ ہے کہ جنابت میں قرآن مجید کی تلاوت ناجائز ہے، البتہ حَدثِ اصغر خروج ریح وغیرہ سے بے وضوہونے کی صورت میں جائز ہے ۔ جیسا کہ حضرت علی رضي الله عنه کی حدیث اس پر دلالت کرتی ہے اور مسِّ مصحف کے سلسلہ میں أولیٰ اور أحوَط(بہتر اور اچھا) مسلک یہ ہے کہ چھونے والا باوضوہو۔ واﷲ تعالیٰ أعلم بالصواب۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب