السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا آیت کریمہ﴿ لَایَمَسُّهٗ اِلَّا المُطَهَّرُونَ﴾ کی روشنی میں قرآنِ حکیم کو باوضوہو کر ہی چھونا ضروری ہے۔ تفصیل سے بیان فرمائیں کہ وضوکی شرط کہاں سے لائی گئی؟
ایک شخص سارا دن قرآنِ پاک کی کتابت کرتا ہے، یا جلد سازی کرتا ہے یا اس کی تصحیح کرتا ہے تو کیا وہ صرف عمومی پاکیزگی کی حالت میں یہ سب کچھ کر سکتا ہے یا وضوکرنا بھی ضروری ہے؟
ایک شخص جیب میں ہر وقت قرآنِ حکیم رکھتا ہے وہ دن میں جب چاہتا ہے۔ قرآن کی تلاوت شروع کر دیتا ہے۔ کیا اس کے لیے بھی وضوکر کے پڑھنا ضروری ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اہل علم کا اس بارے اختلاف ہے کہ آیت کریمہ ﴿لَایَمَسُّهٗ اِلَّا المُطَهَّرُونَ﴾(الواقعۃ:۷۹) سے مراد فرشتے ہیں یا بنی آدم ؟ سلف کی ایک جماعت اس بات کی قائل ہے کہ مقصود اس سے فرشتے ہیں۔ تفسیر ابن کثیر وغیرہ میں ابن عباس رضی اللہ عنہما سے یہی مروی ہے جب کہ دیگر اہل علم نے اس کا اطلاق بنی آدمu سے لے کر جنابت اور حدثِ اصغر (قضائے حاجت وغیرہ سے بے وضوہونے) پر کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہاں خبر بمعنیٰ طلب ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ بے طہارتِ کبریٰ و صغریٰ قرآن کو ہاتھ لگانا جائز نہیں ہے۔ عمرو بن حزم رضي الله عنه کی روایت میں ہے: ’اَن لَا یَمَسَّ القُراٰنَ إِلَّا طَاهِرٌ‘سنن الدارمی،بَابُ لَا طَلَاقَ قَبْلَ نِکَاحٍ،رقم:۲۳۱۲،سنن الدارقطنی،بَابٌ فِی نَهْیِ الْمُحْدِثِ عَنْ مَسِّ الْقُرْآنِ،رقم:۴۳۷
یعنی طہارت کے بغیر قرآن کو مس (چھونا) نہ کیا جائے۔‘‘ اصل یہ ہے کہ مس مصحف کے لیے وضوکا اہتمام ہونا چاہیے لیکن کثرتِ عمل کی بناء پر اہتمام نہ ہوسکے تو پھر کوئی حرج نہیں۔
قرآن مجید میں ہے۔ ﴿ فَاتَّقُوا اللّٰهَ مَا اسْتَطَعتُم﴾ (التغابن:۱۶)
’’سو جہاں تک ہوسکے اللہ سے ڈرو‘‘
امام مالک رحمہ اللہ نے بچوں کو وضوکے بغیر قرآن پکڑنے کی اجازت دی ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب