السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
عورت کے لیے بغلوں اور زیرِ ناف بالوں کو استرے سے صاف کرنا کیا جائز ہے اور کم از کم کتنی مدت کے بعد صاف کرنا صروری ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
زیرِ ناف بالوں کی صفائی کے لیے عورت اُسترا استعمال کر سکتی ہے۔ حدیث میں ہے:
’وَتَستَحِدُّ المُغِیبَةُ۔‘ صحیح البخاری ،بَابُ طَلَبِ الوَلَدِ،رقم:۵۲۴۵
’’جس عورت کا شوہر غیر حاضر ہے، اور اس کے سفر سے آنے کی امید ہے وہ اُسترا استعمال کرے۔‘‘
دوسری حدیث میں ہے کہ پانچ خصلتیں فطرت سے ہیں۔ ان سے ایک ’’الإستحداد‘‘ (لوہا استعمال کرنا) ہے۔ امام شوکانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ زیرِ ناف بالوں کی صفائی کے لیے لوہے (یعنی استرا وغیرہ) کواستعمال کرنا بالإتفاق سنت ہے۔ البتہ بالوں کو اکھاڑنا، پائوڈر استعمال کرنا اور انہیں کترانا سب درست ہے۔
امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ افضل یہ ہے کہ بالوں کو مونڈا جائے، خواہ مرد ہو یا عورت۔ (نیل الأوطار: ۱؍۱۲۳)
بال مونڈنے کا وقفہ چالیس روز سے زیادہ نہیں ہونا چاہیے۔ اس سے پہلے جب ضرورت محسوس ہو کہ بال بڑھنے لگے ہیں تو حسبِ حاجت ان کو مونڈ دینا چاہیے حدیث میں ہے:
’ أَن لَّا نَترُكُ اَکثَرَ مِن اَربَعِینَ لَیلَةً۔‘ (نیل الأوطار: ۱؍ ۱۲۵ ۔ بحواله احمد، الترمذی، النسائی، ابوداؤد) صحیح مسلم،بَابُ خِصَالِ الْفِطْرَةِ،رقم:۲۵۸،سنن ابن ماجه،بَابُ الْفِطْرَةِ،رقم:۲۹۵،سنن النسائی، التَّوْقِیتُ فِی ذَلِكَ،رقم:۱۴
بغلوں کے بالوں میں اصل یہ ہے کہ ان کو اکھاڑا جائے کیونکہ حدیث میں لفظ ’’نتف الإبط‘‘‘ آیا ہے اور اگر یہ ممکن نہ ہو تو مونڈنا بھی جائز ہے۔ امام شافعی رحمہ اللہ مونڈا کرتے تھے، ان سے سوال ہوا کہ سنت تو اکھاڑنا ہے۔ جوابًا فرمایا: ’ لٰکِن لَا اَقوٰی عَلَی الوَجَعِ۔‘ یعنی تکلیف کی وجہ سے میں اکھاڑ نہیں سکتا۔ نیل الأوطار: ۱؍۱۲۴
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب