سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(53) زیرِ ناف بالوں کے لیے صفائی کا طریقہ ،اوزار اور کتنے عرصے بعد کاٹیں؟

  • 24063
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-26
  • مشاہدات : 2731

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

زیرِ ناف بالوں کو کتنے عرصے بعد کاٹنا چاہیے؟ نیز کن طریقوں سے یا کن اشیاء سے ان بالوں کو ختم کرنا چاہیے؟ ،نیز عورتوں کے متعلق بھی ذرا سی روشنی ڈال دیں کہ وہ کتنے عرصہ بعد بال صاف کرسکتی ہیں یا کس طریقے سے جائز ہے۔اس کے علاوہ بغلوں کے بالوں کے متعلق بھی لکھ دیں کہ ان کو کتنے عرصہ بعد صاف کرنا ہو گا؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

بلا تفریق مرد و زن چالیس دن کی مدت کے اندر اندر حسبِ ضرورت زیرِ ناف بالوں کو مونڈنا یا صاف کرنا چاہیے۔ اس کے بعد تَسَاہُل کرنے والے کا فعل سنت کے خلاف شمار ہو گا۔ امام شوکانی رحمہ اللہ   فرماتے ہیں: صفائی کا جونسا طریقہ اختیار کر لیا جائے گا درست ہے۔ چاہے مونڈنا یا کاٹنا ہو یا اکھیڑنا یا پاؤڈر وغیرہ کا استعمال۔ البتہ امام نووی رحمہ اللہ   فرماتے ہیں کہ مونڈنا افضل ہے۔ غالباً اس کی وجہ یہ ہے کہ نصِ حدیث (حدیث کے الفاظ) میں لفظ حلق (مونڈنا) استعمال ہوا ہے۔ لہٰذا حتی المقدور مونڈنے کو اختیار کرنا چاہیے۔ طبی طور پر بھی اس میں کئی فوائد اربابِ فن (اطبائ) کے ہاں مقرر ہیں۔ جب کہ دیگر بعض طریقوں میں قوتِ باہ کے ماند (مردانہ قوت کمزور) پڑنے کا اندیشہ ہے۔

بالوں کے محل کی صفائی کے بارے میں حدیث میں لفظ ’’العانۃ‘‘وارد ہوا ہے۔ اس کی تشریح میں امام نووی رحمہ اللہ   فرماتے ہیں: اَلمُرَادُ بِالعَانَةِ: اَلشَّعرُ فَوقَ ذَکَرِ الرَّجُلِ، وَ حَوَالَیَهِ.وَ کَذٰلِكَ الشَّعرُ الَّذِی حَولَ فَرجِ المَرأَةِ۔‘ نیل الأوطار:۱/۱۲۳

یعنی عانہ سے مراد وہ بال ہیں جو مرد کے عضوِ تناسل کے اوپر اوراس کے گرد ہوتے ہیں۔ اسی طرح عورت کی شرمگاہ کے وہ بال جو اس کے اردگرد ہیں۔

ابو العباس بن سریج رحمہ اللہ   کا کہنا ہے کہ’’العانۃ‘‘ وہ بال ہیں جو پُشت پر اُگتے ہیں۔ امام نووی رحمہ اللہ   فرماتے ہیں: اس حدیث کے مجموعے کا ماحصل یہ ہے کہ وہ بال جو ’’قُبُل‘‘ اور ’’دُبر‘‘ کے اوپر اور اردگرد اُگتے ہیں، اُن تمام کا مونڈنا مستحب ہے ۔

 جواباً : امام شوکانی رحمہ اللہ   فرماتے ہیں:لفظ ’’إستحداد‘‘ سے مقصود اگر’’العانۃ‘‘ کا مونڈنا ہے جس طرح کہ نووی رحمہ اللہ   نے بیان کیاہے تو اس صورت میں اس بات کی دلیل نہیں ہو گی کہ ’’دُبر‘‘ پر اُگے بالوں کو مونڈنا بھی سنت ہے۔ اگرچہ حلق (مونڈنا) بذریعہ اُسترا ہی کیوں نہ ہو، جس طرح کہ ’’قاموس‘‘ میں ہے ۔ بلا ریب لفظ ’’إستحداد‘‘ لفظ ’’العانۃ‘‘ سے زیادہ عام ہے۔ لیکن صحیح مسلم وغیرہ کی حدیث ’’عَشرٌ مِّنَ الفِطرَةِ‘ میں ’’إستحداد‘‘ کے بجائے’’حلق العانۃ‘‘ کے لفظ وارد ہیں۔ اس سے مطلق ’’إستحداد‘‘ کی وضاحت ہو گئی جو حدیث’’خَمسٌ مِن الفطرۃ‘میں ہے۔ بہر صورت یہ کہنا کہ ’’دُبُر‘‘ کے بالوں کا حلق سنت یا مستحب ہے، دعویٰ بِلا دلیل ہے۔ نبیﷺ کے فعل یا کسی ایک صحابی کے عمل سے معلوم نہیں ہو سکا کہ انھوں نے ’’دُبُر‘‘ کے بالوں کو مونڈا ہو۔نیل الأوطار (۱/۱۲۴)

فوقیت (بہتری) کے اعتبار سے جو حکم زیرِ ناف کے بالوں کا ہے وہی بغلوں کے بالوں کا بھی ہے۔ یعنی وقفہ چالیس یوم سے زائد نہیں ہونا چاہیے ۔ دونوں چیزوں کا تذکرہ ایک ہی حدیث میں ہے، تاہم دونوں میںفرق یہ ہے کہ حدیث میں زیرِ ناف کے بالوں کو مونڈنے کی تصریح (وضاحت)ہے، جب کہ بغلوں کے بالوں کو اکھیڑنے کی نص وارد( موجود) ہے۔ لہٰذا بغلوں کے بال اکھیڑنے کا اہتمام ہونا چاہیے۔ بأمرِمجبوری ’’حلق‘‘ بھی ممکن ہے، اس لیے کہ مقصود صفائی کا حصول ہے۔

 یونس بن عبد الأعلی رحمہ اللہ  کا بیان ہے:

’ دَخَلتُ إِلَی الشَّافِعِیِّ رَحِمَهُ اللّٰه، وَ عِندَه المُزِینُ یَحلِقُ إِبِطَه . فَقَالَ الشَّافِعِیُّ: عَلِمتُ أَنَّ السُّنَّةَ النَّتفُ، وَلٰکِن لَا أَقوٰی عَلَی الوَجعِ۔‘ نیل الاوطار:۱/۱۲۴

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ حافظ ثناء اللہ مدنی

كتاب الطہارۃ:صفحہ:112

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ