السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
علقمہ رحمہ اللہ اور اسود رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ ایک شخص حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس اُترا صبح کو اپنا کپڑا دھونے لگا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ تجھے کافی تھا اگر مَنی تو نے دیکھی تو صرف اتنا مقام دھو ڈالتا اور جو نہیں دیکھی تو پانی گردا گرد چھڑک دیتا۔میں تو رسول اﷲﷺ کے کپڑے سے مَنی چھیل ڈالتی۔ یعنی کھرچ ڈالتی۔ پھر آپ اس کپڑے کو پہن کر نماز پڑھتے۔ صحیح مسلم،بَابُ حُکْمِ الْمَنِیِّ،رقم:۲۸۸
اس حدیث کے فوائد میں علامہ وحید الزمان نے فرمایا کہ علامہ نووی رحمہ اللہ نے کہا۔ علماء نے اختلاف کیا ہے ۔ آدمی کی مَنی میں امام مالک اور امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا مذہب ہے کہ وہ نجس ہے اور بہت سے علماء اس طرف گئے ہیں کہ مَنی پاک ہے اور یہی مروی ہے حضرت علی، حضرت عمر اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہم سے اور یہی مذہب ہے امام احمد رحمہ اللہ اور امام شافعی رحمہ اللہ اور اہلِ حدیث کا۔
آپ سے گزارش ہے کہ مَنی پاک ہے یا ناپاک؟ اس بارے میں قرآن و حدیث کی روشنی میں مفصل جواب دیں۔
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
دلائل کی رُو سے قوی مسلک یہ ہے کہ مَنی پاک ہے جس طرح کہ صحیح احادیث میں مصرح(واضح) ہے۔
حنفیہ کے مسلمہ بزرگ طحاوی رحمہ اللہ، ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں۔ یعنی ’’منی کی بابت رسول اﷲﷺ سے سوال ہوا کہ کپڑے کو لگ جائے تو کیاکرے؟ فرمایا: مَنی بلغم یعنی سینڈھ اور تھوک کے بمنزلہ(کی طرح) ہے۔ توتجھے صرف اس کالیر(کپڑا) یا گھاس اذخر سے پو نچھنا کافی ہے۔
ملاحظہ ہو’’المنتقیٰ، مَعَ نَیلُ الاَوطَار‘‘ ظاہر ہے کہ انبیاء علیہم السلام کی تخلیق کا عنصر ناپاک نہیں ہو سکتا ہے اس سے بھی معلوم ہوا کہ مَنی پاک ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب