السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
’’بلوغ المرام‘‘ میں ایک حدیث نظر سے گزری جس کا متن کچھ یوں ہے:
’’حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ نبی ﷺ (کپڑے پر لگی ہوئی) مَنی دھویا کرتے تھے پھر اسی کپڑے کو زیبِ تن فرما کر نماز پڑھ لیتے تھے اور میں دھونے کے نشان کو اور اثر کو صاف طور پر (اپنی آنکھوں سے) دیکھتی تھی۔‘‘
صحیح البخاری،بَابُ غَسْلِ المَنِیِّ وَفَرْکِهِ، وَغَسْلِ مَا یُصِیبُ مِنَ المَرْأَةِ،رقم:۲۳۰،صحیح مسلم،بَابُ حُکْمِ الْمَنِیِّ،رقم:۲۸۹
اور مسلم کی روایت میں ہے رسول اللہ ﷺ کے کپڑے سے مَنی کو کھرچ دیا کرتی تھی پھر آپ ﷺ اسی کپڑے میں نماز ادا فرماتے تھے۔ صحیح مسلم،بَابُ حُکْمِ الْمَنِیِّ،رقم:۲۸۸
مسلم ہی کی روایت ہے کہ جب مَنی خشک ہوجاتی تو میں اپنے ناخن سے اسے کھرچ کر کپڑے سے اتار دیتی۔( صحیح مسلم،بَابُ حُکْمِ الْمَنِیِّ،رقم:۲۸۹)اس حدیث کی تخریج میں یہ لکھا ہے کہ مَنی کو مطلقاً کپڑے سے دھونا واجب نہیں خواہ خشک ہو یا تر بلکہ جب کہ وہ خشک ہو اتنا ہی کافی ہے کہ اسے صاف کردے ہاتھ یا کپڑے کے ٹکڑے سے۔ علامہ شوکانی رحمہ اللہ نے نیل الأوطار میں کہا ہے کہ مَنی کو دھو کر ہاتھ کے ساتھ صاف کرکے وغیرہ طریقوں سے زائل کرنا ثابت ہے۔ اس مسئلہ میں اختلاف ہے کہ انسان کا مادہ منویہ پاک ہے یا ناپاک۔ ایک گروہ کا کہنا ہے کہ یہ لعاب دہن کی طرف پاک ہے۔ اس نظریہ کی تائید میں امام شافعی، امام احمدs ائمہ میں سے اور صحابہ رضی اللہ عنہم میں سے حضرت علی، سعد بن وقاص، حضرت ابن عمر اور ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہم شامل ہیں۔ جب کہ دوسرے نظریے کی تائید ائمہ میں سے امام مالک اور امام ابوحنیفہ s نے کی ہے۔ دونوں مکتبِ فکر کے پاس دلائل ہیں۔
آپ سے اس مسئلہ کی وضاحت ہے تاکہ کسی ایک نقطہ پر ذہن کو مرکوز کیا جاسکے۔
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
مَنی پاک ہے یا ناپاک؟ اس سلسلہ میں وارد متعارض روایات کو ائمہ کرام نے مختلف انداز میں تطبیق دی ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ رقم طراز ہیں، مَنی کو دھونے اور کھرچنے کی روایات میں تعارض نہیں جو لوگ مَنی کی طہارت کے قائل ہیں ان کے ہاں وجہ جمع واضح ہے۔ مَنی کا دھونا واجب نہیں استحباب نظافت پر محمول ہے۔ یہ امام شافعی، احمد اور اصحابِ حدیث کا طریقہ کار ہے۔
اس طرح جو لوگ اس کی نجاست کے قائل ہیں ان کے نزدیک وجہِ جمع یوں ہے۔ جس حدیث میں مَنی کو دھونے کا ذکر ہے یہ محمول ہے اس صورت پر کہ مَنی تَر ہو اور کھرچنا اس صورت میں ہے جب کہ وہ خشک ہو، یہ حنفیہ کا طریقہ ہے۔ لیکن پہلا طریقہ زیادہ راجح ہے، کیونکہ اس صورت میں حدیث اور قیاس دونوں پر عمل ہوجاتا ہے، کیونکہ اگر یہ نجس ہے تو قیاس کا تقاضا یہ ہے کہ اس کا دھونا واجب ہو، صرف کھرچنا کافی نہیں ہونا چاہیے۔ جس طرح کہ خون وغیرہ کا دھونا ضروری ہے، اور وہ لوگ بلا عفو ورعایت لہو کو صرف کھرچنا کافی نہیں سمجھتے۔
دوسرے طریقہ کی تردید ابن خزیمہ رحمہ اللہ کی روایت سے ہوتی ہے جس کو دوسرے طریق سے عائشہ رضی اللہ عنہا سے بیان کیا ہے۔ حضرت عائشہ گھاس کی جَڑ سے مَنی کو آپ ﷺ کے کپڑے سے اتارتی تھیں، اور خشک کو آپﷺ کے کپڑے سے کھرچ دیتی تھیں۔ پھر آپ اس میں نماز پڑھ لیتے۔(صحیح ابن خزیمه،بَابُ سَلْتِ الْمَنِیِّ مِنَ الثَّوْبِ بِالْإِذْخِرِ إِذَا کَانَ رَطْبًا،رقم:۲۹۴) یہ حدیث دونوں حالتوں میں ترکِ غسل کو متضمن(شامل) ہے۔ اور مالک رحمہ اللہ کے ہاں تو کھرچنا ویسے ہی غیر معروف ہے۔ وہ فرماتے ہیں دیگر نجاسات کی طرح اس کا دھونا بھی واجب ہے۔ لیکن کھرچنے کی حدیث ان کے خلاف دلیل ہے۔ پھر حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے صحیح مسلم اور ترمذی کی روایات سے ان کے خلاف حجت قائم کی ہے، اور سب سے واضح ابن خزیمہ کی روایت ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا آپ کے کپڑے سے مَنی کھرچ دیتی تھیں۔ پھر آپ اس میں نماز پڑھ لیتے۔ (صحیح ابن خزیمه، بَابُ ذِکْرِ الدَّلِیلِ عَلَی أَنَّ الْمَنِیَّ لَیْسَ بِنَجَسٍ، وَالرُّخْصَةُ فِی فَرْکِهِ …الخ، رقم:۲۹۰)
اگر یہ فرض کر لیا جائے کہ اس بارے میں کوئی شے وارد نہیں تو حدیث الباب میں کوئی شے ایسی نہیں جو مَنی کی نجاست پر دال ہو۔ کیونکہ مَنی کو دھونا محض فعل ہے، اور فعل وجوب پر دلالت نہیں کرتا۔( فتح الباری: ۱/ ۳۳۲)
نیز حنفیہ کے مُسلَّمہ بزرگ امام طحاوی رحمہ اللہ بسندہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں کہ مَنی کی بابت رسول اللہﷺ سے سوال ہوا کہ کپڑے کو لگ جائے تو کیا کرے؟ فرمایا: کہ مَنی رینٹ یعنی سینڈھ اور تھوک کے بمنزلہ ہے، اور تجھے صرف اس کا لیر (کپڑا) یا گھاس اذخر سے پونچھنا کافی ہے۔ بحوالہ : نیل الأوطار۔
اس سے معلوم ہوا راجح مسلک ان لوگوں کاہے جو مَنی کی طہارت کے قائل ہیں۔ مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو! ’’فتح الباری‘‘وغیرہ۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب