سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(32) دو حیضوں کا درمیانی وقفہ (عرصۂ طہر )کتنے دن کا ہوتا ہے؟

  • 24042
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 3627

سوال

(32) دو حیضوں کا درمیانی وقفہ (عرصۂ طہر )کتنے دن کا ہوتا ہے؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

دو حیضوں کے درمیان کا وقت عرصۂ طہر یعنی پاکی کا زمانہ کہلاتا ہے۔ حنابلہ کے نزدیک دو حیضوں کے درمیان پاک رہنے کی کم سے کم مدت تیرہ دن ہے اور مقلدین ائمہ ثلاثہ کے نزدیک کم سے کم مدت پندرہ یوم ہے۔ عام طور پر حیض سے پاک ہونے کے تقریباً ۲۰، ۲۱ دن بعد دوسرا حیض شروع ہوتا ہے ۔ درمیان کے یہ ۲۰،۲۱ دن طہر کا زمانہ کہلاتا ہے۔ بعض وجوہات کی بناء پر حیض دو چار دن پہلے یا لیٹ بھی ہو جاتا ہے۔

احادیث و آثار کی روشنی میں کتنے دن بعد خون دکھائی دے تو اسے حیض کہیں گے ورنہ کسی بیماری کا خون قرار دے کر نماز اور روزہ سے نہ روکیں گے۔ طبی اعتبار سے بیس اکیس دن پاکی کا عرصہ ہوتا ہے۔ جو دو چار دن زیادہ یا کم ہو سکتا ہے۔ مثال کے طور پر کوئی عورت پاک ہونے کے ایک ہفتے بعد پھر خون دیکھے تو کیا یہ حیض نہیں سمجھا جائے گا۔ ویسے بھی خلاف ِ عادت آیا ہو تو کیا حکم ہے ؟ اور ایسی عورت جسے ہر بار ہفتے بعد خون دکھائی دے تو صحیح بخاری میں حضرت علی کا واقعہ ہے کہ ایک عورت کو ایک مہینے میں تین دفعہ حیض آگیا تو انھوں نے کہا طلاق واقع ہو گئی۔ اگر کسی عورت کو ایک مہینے میں تین دفعہ حیض آنے کی عادت نہیں تو اُسے حیض نہیں کہا جا سکتا کیونکہ اس کی پہلی عادت کا بھی لحاظ کیا جائے گا۔ اس بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

عام حالات میں عورتوں کو حیض کا خون ایک ماہ میں ایک دفعہ آتا ہے لیکن بعض دفعہ ایک ماہ میں متعدد دفعہ بھی آسکتا ہے۔ چنانچہ صحیح بخاری کے ترجمۃ الباب میں ہے:

’بَابُ إِذَا حَاضَت فِی شَهرٍ ثَلَاثَةَ حِیضٍ ، وَ مَا یُصَدَّقُ النِّسَاءُ فِی الحَیضِ، وَالحَملِ فِیمَا یُمکِنُ مِنَ الحَیضِ لِقَولِ اللّٰهِ تَعَالٰی﴿وَ لَا یَحِلُّ لَهُنَّ اَن یَکتُمنَ مَا خَلَقَ اللّٰهُ فِی أَرحَامِهِنَّ﴾ َیُذکَرُ عَن عَلِیٍّ وَ شُرَیحٍ اَنَّ اِمرَأَةً جَاءَت بِبَیِّنَةٍ مِن بِطَانَةِ اَهلِهَا مِمَّن یُرضٰی دِینُهٗ اَنَّهَا حَاضَت ثَلَاثًا فِی شَهرٍ صُدِّقَت۔ وَ قَالَ عَطَاءٌ : أَقرَاؤُهَا مَا کَانَت ۔ وَ بِهٖ قَالَ اِبرَاهِیمُ۔ وَ قَالَ عَطَاءٌ: اَلحَیضُ یَومٌ اِلٰی خَمسَ عَشرَةَ ۔ وَ قَالَ مُعتَمِرٌ عَن أَبِیهِ ، سَأََلتُ اِبنَ سِیرِینَ عَنِ المَرأَةِ تَرَی الدَّمَ بَعدَ قُرُوْئِهَا بِخَمسَةِ اَیَّامِ ۔ قَالَ : النِّسَاءُ أَعلَمُ بِذٰلك‘

’’جب عورت کو ایک ماہ میں تین بار حیض آجائے( تو اس کا کیا حکم ہے) اور وہ اُمور جن میں بسلسلہ حیض اور حمل عورتوں کی تصدیق ممکن ہے( اور جہاں نا ممکن ہو وہاں تصدیق نہیں ہو سکتی) اﷲ تعالیٰ کے اس فرمان کی بناء پر کہ اگر وہ اﷲ اور روزِ قیامت پر ایمان رکھتی ہیں تو ان کے لیے جائز نہیں کہ اﷲ نے جو کچھ ان کے شکم میں پیدا کیا ہے اس کو چھپائیں۔ یعنی عورت کے لیے حلال نہیں کہ شوہر سے حیض یا حمل کو چھپائے رکھے کیونکہ انقضاء عدت(عدت کے خاتمہ) کا دارومدار اسی پر ہے۔ آیت ہذا میں اس امر کی راہنمائی ہے کہ ممکنہ امور میں عورت کے دعویٰ کی تصدیق ہو گی ۔ حضرت علیt اورقاضی شریح رحمہ اللہ   سے منقول ہے کہ اگر عورت اپنے اہل میں سے خواص اور دینی اعتبار سے پسندیدہ گواہ لے کر آتی ہے کہ اس کو مہینہ میں تین دفعہ حیض آیا ہے تو اس کی بات کو سچا سمجھا جائے گا۔ عطاء نے کہا کہ حیض میں عورت کی عادت کا اعتبار ہو گااور ابراہیم نخعی رحمہ اللہ   کا بھی یہی قول ہے اور عطاء نے کہا کہ حیض کا زمانہ ایک سے لے کر پندرہ دن تک ہے اور معتمر نے اپنے باپ سلیمان تیمی سے بیان کیا ہے کہ میں نے ابن سیرین سے اس عورت کے بارے میں دریافت کیا جسے حیض کے پانچ روز بعد خون آتا ہے۔ جواباً فرمایا: ’’عورتوں کو اس بات کا زیادہ علم ہے۔‘‘

مقصد یہ ہے کہ وہ اپنی عادت اور خون کے لیے رنگ دیکھ کر اس کے مطابق عمل کریں گی، پھر قصۂ فاطمہ بنت حُبیش سے مصنف کا استدلال ہے کہ یہاں معاملہ عورت کی عادت اور دیانت و امانت پر چھوڑا گیا ہے۔ لہٰذا اگر واقعاتی طور پر تصدیق ہو جائے کہ حیض کے چند یوم بعد آمدہ خون بھی حیض ہی ہے تو وہ حیض ہی شمار ہو گا، ورنہ وہ دمِ استحاضہ ہو گا، جس میں عورت حکماً طاہر ہوتی ہے۔

حضرت علی رضي الله عنه کا مشارٌ الیہ قصہ ’’صحیح بخاری‘‘ کی مسندات(سند والی روایات) میں نہیں بلکہ ’’ترجمۃ الباب‘‘ میں ہے جس کی وضاحت پہلے ہو چکی ہے۔ اس واقعہ کی مزید تفصیل امام دارمی رحمہ اللہ   نے ذکر کی ہے کہ ایک مطلقہ کو مہینے میں تین دفعہ حیض آیاتو قاضی شریح نے اس کو عدت سے فارغ قرار دیا اور حضرت علی رضي الله عنه نے فعلِ ہذا مستحسن سمجھا۔(فتح الباری: ۱/۴۲۵)

  ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ حافظ ثناء اللہ مدنی

كتاب الطہارۃ:صفحہ:99

محدث فتویٰ

تبصرے