مسجد تعمیر کرتے وقت مسجد کا رخ سمت کعبہ ہونا چاہیے یا کعبہ عین فرض ہے۔ کیونکہ یہاں پر مسجد تعمیر ہونی ہے کعبہ رخ میں الجھن ہے۔ کچھ لوگ کہتے ہیں سمت کعبہ ہونا چاہیے کچھ کہتے ہیں کعبہ عین فرض ہے آپ اس پر روشنی ڈالیے۔ جواب سے جلد از جلد سرفراز فرمائیں اور حضرت امام صاحب سے دریافت فرما کر تحریر کریں تاکہ مسجد کی تعمیر شروع کی جاوے۔
________________________________________________________________
جواب:… حدیث شریف میں اہل مدینہ کو آپ نے فرمایا کہ
«مَا بَیْنَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ قِبْلَة»
’’یعنی تمہارے لیے مشرق اور مغرب کے درمیان قبلہ ہے۔‘‘
یعنی مشرق اور مغرب کے درمیان جہت قبلہ کو متوجہ ہو جاؤ۔
جب دونوں کے درمیان قبلہ بتایا تو وسط کو لے لینا چاہیے۔ یہ حکم اہل مدینہ کو تھا۔ اہل عراق و خراسان کا قبلہ جنوب و شمال کے درمیان تھا اسی طرح ہماری سمت ہے۔ کہ ہم مشرق اور مغرب کے درمیان ہیں تو ہمارا قبلہ جنوب شمال کے درمیان مغرب کی طرف ہے۔ ہم کو وسط کا خیال کرنا چاہیے۔ باقی بیت اللہ تو ایک چھوٹا سا مکان ہے جو شخص اس کے پاس ہو گا اس کو تو عین بیت اللہ کی طرف متوجہ ہونا پڑے گا۔ اور جو دور ہو کر اس سے غائب ہو گا اس کو صرف سمت اور جہت کا لحاظ رکھنا پڑے گا۔ عین قبلہ تو کسی کے سامنے نہیں آ سکتا یہ محال ہے۔ یہ کون اندازہ کر سکتا ہے کہ جہاں نماز کھڑی ہے وہاں سے قبلہ عین اس کی پیشانی کے سامنے واقع ہے۔ ہاں سب جہت کا اندازہ رکھتے ہیں۔ پس آپ صاحبان وسط کا اندازہ کر کے جنو ب شمال کے درمیان مسجد تعمیر کر دیں کہ مغرب کی طرف قبلہ رخ ہو۔ هذا ما عندی واللّٰہ أعلم بالصواب (کتبہ عبد القادر الحصاری غفرلہ الباری) (الجواب صحیح ابو محمد عبد الستار غفرلہ، جواب صحیح ہے عبد القہار نائب مفتی کراچی، فتاویٰ ستاریہ جلد چہارم ص ۱۴۷)