سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(24) سورۃ البقرۃ آیت ۲۲۸ میں ’’قروء‘‘ (قرء) سے مراد حیض ہے یا طہر؟

  • 24034
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-04
  • مشاہدات : 953

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

سورۃ البقرۃ آیت ۲۲۸ میں ’’قروء‘‘ (قرء) سے مراد حیض ہے یا طہر؟

(حنفیہ وحنابلہ کے نزدیک نیز مالکیہ کے نزدیک بھی قابلِ ترجیح قول یہی ہے کہ یہاں قرء سے مراد حیض ہے اور خلفائے راشدین وحضرت ابن عباس رضی اللہ عنہم  بھی اسی کے قائل ہیں۔)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اس بارے میں سلف کا اختلاف ہے کہ یہاں ’’قرء‘‘ سے مراد حیض ہے یا طہر۔ صحابۂ کرام  رضی اللہ عنہم  کا ایک گروہ اس بات کا قائل ہے کہ ’’قرء‘‘ بمعنی طُہر ہے۔ امام مالک رحمہ اللہ   اور امام شافعی رحمہ اللہ   کا بھی یہی مذہب ہے جب کہ دوسری طرف خلفائے اربعہ اور کثیر تعداد صحابہ رضی اللہ عنہم  اور تابعین رحمهما الله کا یہ قول ہے کہ ’’قرء‘‘ سے مراد حیض ہے۔ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ   کا بھی یہی مذہب ہے اور احمد رحمہ اللہ   فرماتے ہیں کہ اکابر صحابہ اس کے قائل ہیں کہ ’’قرء‘‘ بمعنی حیض ہے۔ لغوی طور پر لفظ ’’قرء‘‘ مشترک المعنی ہے اور علمائے لسان عرب اور فقہائے عظام کا اس میں کوئی اختلاف نہیں کہ ’’قرء‘‘ کے معنی حیض اور طُہر دونوں ہیں۔ جو لوگ اس بات کے قائل ہیں کہ آیتِ قرآنی میں ’’قرؤ‘‘ سے مراد حیض ہے ان کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ نبی ﷺ نے فاطمہ بنت أبی حبیش سے فرمایاتھا کہ ’’دَعِی الصَّلٰوةَ أیَّامَ أَقرَائِكِ‘‘(سنن الدارقطنی،کِتَابُ الْحَیْضِ،بَابُ مَا فِی الْمَسْحِ عَلَی الْخُفَّیْنِ مِنْ غَیْرِ تَوْقِیتٍ،رقم:۸۲۲)  یعنی ’’ایامِ حیض میں نماز ترک کردیا کرو۔‘‘ اس سے یہ بات متعین ہوجاتی ہے کہ یہاں ’’قرؤ‘‘ سے مراد حیض ہے۔ تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو!الشرح الممتع علی زاد المستقنع (۱۰/ ۶۶۱)اور نیل الأوطار (۶/۳۰۸)

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ حافظ ثناء اللہ مدنی

كتاب الطہارۃ:صفحہ:97

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ