السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
سورۃ البقرہ کی آیت ۲۲۸ میں قروء سے مراد حیض ہے یا طہر؟ حنفیہ و حنابلہ نیز مالکیہ کے نزدیک بھی راجح قول یہی ہے کہ یہاں قروء سے مراد حیض ہے۔ خلفاے راشدین رضی اللہ عنہم اورحضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما بھی اسی کے قائل ہیں۔
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اس بارے میں سلف کا اختلاف ہے کہ یہاں قروء سے مراد حیض ہے یا طہر؟ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کاایک گروہ اس بات کا قائل ہے کہ قروء بمعنی طہر ہے اور امام مالک رحمہ اللہ اور امام شافعی رحمہ اللہ کا بھی یہی مذہب ہے۔ جبکہ دوسری طرف خلفاے اربعہ رضی اللہ عنہم اور کثیر تعداد صحابہ رضی اللہ عنہم اور تابعینs کا یہ قول ہے کہ قروء سے مراد حیض ہے۔ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا بھی یہی مذہب ہے اور احمد رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اکابر صحابہ رضی اللہ عنہم اسی کے قائل ہیں کہ قروء بمعنی حیض ہے ۔ لغوی طور پر لفظ قروء مشترک المعنی ہے اور علماے لسان عرب اور فقہاے عظام کا اس میں کوئی اختلاف نہیں کہ قروء کے معنی حیض اور طہر دونوں ہیں۔ جو لوگ اس بات کے قائل ہیں کہ آیت ِقرآنی میں قروء سے مراد حیض ہے،ان کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ نبی ﷺ نے فاطمہ بنت ابی حبیش سے فرمایا تھا:’دَعِی الصَّلَاةَ أَیَّامَ أَقْرَائِكِ‘ (سنن الدارقطنی،کِتَابُ الْحَیْضِ،بَابُ مَا فِی الْمَسْحِ عَلَی الْخُفَّیْنِ مِنْ غَیْرِ تَوْقِیتٍ،رقم:۸۲۲)یعنی ’’ایامِ حیض میں نماز ترک کردیا کرو۔‘‘ اس سے یہ بات متعین ہوجاتی ہے کہ یہاں قروء سے مراد حیض ہے۔ تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو: الشرح المُقنع علی زاد المستقنع:۱۰۶۶۱ اور نیل الاوطار :۶۳۰۸۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب