سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(21) حیض کے خاتمے پر، غسل سے قبل مباشرت کرنا؟

  • 24031
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-05
  • مشاہدات : 1930

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

سورۃ البقرہ کی آیت ۲۲۲ یہ ہے :﴿وَلَا تَقْرَبُوہُنَّ حَتَّیٰ یَطْہُرْنَ﴾ یعنی حیض سے پاک ہوجانے کے بعد وطی کی اجازت دی گئی ہے۔ اس آیت کی رو سے کیا غسل کے بغیر مباشرت حرام ہے، جیسا کہ اکثر اسلاف اسی کے قائل ہیں یا پاک ہونے کا مطلب محض خونِ حیض کا بند ہوجانا ہے، اگرچہ عورت نے غسل نہ بھی کیا ہو؟ (حافظ عبداللہ سلفی، ملتان روڈ، لاہور)


 الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال 

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

جمہور اہل علم کا مسلک یہی ہے کہ انقطاعِ حیض کے بعد غسل سے فراغت کے بعد ہی بیوی سے وطی حلال ہوتی ہے۔ تاہم بعض سلف نے بایں صورت مخصوص مقام کو دھونے یا وضو وغیرہ کی صورت میں بھی وطی حلال قرار دی ہے۔ فقیہ ابن قدامہ نے المغنی:۱۴۲۰) میں قرآنی الفاظ ﴿فَإِذَا تَطَہَّرْنَ﴾ کی تفسیر ابن عباس رضی اللہ عنہما  سے یوں نقل کی ہے:یعنی إذا اغتسلن ’’جب عورت غسل کرلے۔‘‘ اگرچہ حافظ ابن حزم رحمہ اللہ  نے المُحلّٰی۱/۲۵۶،۳۵۷) میں دوسرا مسلک اختیار کیا ہے اور علامہ البانی  رحمہ اللہ   نے بھی آداب الزفاف (صفحہ ۴۸) میں اسی مسلک کو دلائل سے قریب ترقرار دیا ہے لیکن میرے نزدیک جمہور کا مسلک راجح ہے۔ احادیث فاطمہ بنت ِابی حبیش وغیرہ جو اس بارے میں صریح ہیں ،سے بھی اسی امر کی تائید ہوتی ہے۔ دوسرا مذہب اضطراری حالت پر محمول ہوگا۔ واﷲ تعالیٰ اعلم بالصواب

اور امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ  کا یہ قول کہ دس روز سے پہلے اگر عورت حیض سے پاک ہوجائے تو غسل کے بعد وطی کا جواز ہے اور اگر دس روز کے بعد فارغ ہو تو بلا غسل بھی وطی جائز ہے، حافظ ابن حزم  رحمہ اللہ  اور مفسر قرطبی رحمہ اللہ  نے اس کو بلا دلیل قرار دیا ہے جس کی کوئی معقول وجہ نہیں۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ حافظ ثناء اللہ مدنی

كتاب الطہارۃ:صفحہ:95

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ