کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ اگر دو مسجدیں ایک محلہ میں برائے غرض و بن بنا کی جاویں ایک اس میں جامع مسجد ہے۔ اس میں بحز جمعہ اور نماز ظہر و عصر کے دیگر کوئی نماز نہیں ہوتی، کیوں کہ اس کے گرد و نواح ہنود رہنے والے ہیں۔ اور امام بھی نماز عصر کے اپنے خانہ کو چلا جاتا ہے۔ اور دوسری مسجد مسلمانوں کے بیوت کے کنارے پر ہے۔ اس میں سوائے جمعہ کے نماز بہ جماعت ہوتی رہتی ہے۔ اور دوسری مسجد جمعہ فریقین اتفاق سے مدت کثیر تک یک جگہ مسجد جامع میں پڑھتے تھے آخر الامر عرصہ ایک ماہ سے بباعث فساد مذہبی کے کہ ہم لوگ دوسری مسجد والے اہل حدیث اور موحدین، انہوں نے ہمارے ساتھ فساد و شر کیا۔ ہم لوگوں نے واسطے دفع شر کے اپنی مسجد میں علیحدہ جمعہ شروع کیا، دوسرے بھائی ہمارے مسجد والے حنفی مذہب تھے، انہوں نے ہماری مسجد کو مسجد ضرور مقرر کیا۔ اور عدم جواز صلوٰۃ کا فتویٰ دیا، بلکہ ہدم اور احراق کا حکم دیا، مگر بباعث آئین سرکاری کے مجبور رہے اور چند دلیلیں مسجد ضرار ہونے کی ٹھہرائی ہیں۔ اول تو اپنے زعم فاسد کے موجب اس آیت کے مصداق میں داخل کیا۔ ﴿وَالَّذِينَ اتَّخَذُوا مَسْجِدًا ضِرَارًا وَكُفْرًا وَتَفْرِيقًا بَيْنَ الْمُؤْمِنِينَ وَإِرْصَادًا لِّمَنْ حَارَبَ اللَّـهَ وَرَسُولَهُ﴾الخ
دوسری
قال عطاء لما فتح اللّٰہ علی عمر بن الخطاب الأمصار أمر المسلمین ان ینبوا المساجد وأمرهم أن لا یبنوا فی موضع واحد مسجدین یضار أحد هما الاخر ہکذا فی الخازن
تیسری
وقیل کل مجسد بنی مباهاة اوریاء
اور
سمعة او لغرض سواء ابتغاء وجه اللّٰہ او بمال غیر طیّب فهو لا حق بمسجد الضرار۔ ہکذا فی المدارك
واللہ باللہ ثم تا اللہ ہم لوگوں نے صرف تفر باللہ کی غرض سے عرصہ چار سال سے مسجد کو بنا کیا ہے۔ نہ واسطے خرابات مذکورات کے حدیث شریف انما الاعمال بالنیات موجود ہے۔ یہی ہمارے حنفی بھائیی ہمارے ساتھ اس مسجد میں چند دفعہ نماز پڑھ چکے ہیں۔ مگر اب بباعث مخالفت کے مدت ایک ماہ سے مسجد ضرار ٹھہرا دیا ہے۔ اور ہم نے فتنہ و فساد اور دفع شر کے لیے نماز جمعہ علیحدہ شروع کی، نہ برائے غرض تفریق مومنین کے دیگر کیا اظہار کروں واللّٰہ علیم بذات الصدور شاہد ہے، لہٰذا التماس ہے۔ کہ ضرور فی سبیل اللہ عنایت فرما کر ان تینوں دلیلوں مذکورہ بالا اور قولہ فی موضع واحد مسجدین یضار احمد ہما الآخر کا مقصد اور معنی بیان فرما دیں اور جواز اور عدم جواز صلوٰۃ اور ضرار اور عدم ضرار کا فتویٰ زود تر تحریر فرما دیں۔ بینوا توجروا
_______________________________________________________________________
صورت مسئولہ میں جبکہ اہل حدیث مذکورین نے اپنی مسجد کو عرصہ چار سال سے بنایا ہے اور قسم کھاتے ہیں کہ اس کو تقر باللہ بنایا ہے۔ اور اب عرصہ ایک ماہ سے واسطے دفع شر و فساد احناف کے اس مسجد میں جمعہ شروع کیا ہے۔ تو وہ مسجد اس وجہ سے ہر گز ہر گز مسجد ضرار نہیں ہو سکتی اور اس میں بلا شبہ نماز جائز و درست ہے۔ اور جو احناف اس مسجد کو مسجد ضرار مقرر کرتے ہیں اور اس کے ہدم و احراق کا حکم دیتے ہیں، اور اس میں عدم جواز کا فتویٰ دیتے ہیں۔ (حالانکہ یہ احناف بھی اس میں چند دفعہ نماز پڑھ چکے ہیں۔) وہ بہت ہی بڑے ظالم ہیں اور ساعی فی خراب المسجد ہیں۔ اور یہ احناف اس مسجد کے مسجد ضرار ٹھیرانے میں جو دلیلیں پیش کرتے ہیں، ان میں کسی دلیل سے یہ مسجد اس وجہ سے مسجد ضرار نہیں ٹھیر سکتی کہ اس آیۃ میں جس مسجد کا بیان ہے۔ اس کو منافقوں نے بنایا تھا۔ اور اس کی بنیاد ضرار اور کفر اور تفریق بین المومنین اور صاد لمن حارب اللہ ورسولہ پر تھی، اور صورت مسئولہ میں جس مسجد کو اہل حدیث نے بنایا ہے۔ اس کی بنیاد تقرب الی اللہ ہے۔ پس اس آیت سے یہ مسجد ضرار کیوں کر ٹھیر سکتی ہے اور قول عمر رضی اللہ عنہ سے یہ مسجد اس وجہ سے مسجد ضرار نہیں ٹھہر سکتی کہ اس قول کا مطلب یہ ہے۔ کہ ایک مقام میں ایسی دو مسجدیں نہیں بنانی چاہئیں کہ ایک کہ وجہ سے دوسری کو ضرر پہنچے۔ اور سوال سے ظاہر ہے۔ کہ صورت مسئولہ میں ایک مسجد سے دوسری کو بجز نفع کے کچھ بھی ضرر نہیں ہے کہ یہ مسجد دین اور تقرب للہ کی غرض سے بنائی گئی ہے۔ پس تیسری دلیل یعنی قبل کل مسجد بنی مباہاۃ اوریاء او سمعۃ الخ سے بھی یہ مسجد مسجد ضرار نہیں ٹھیر سکتی۔ اور رفع فتنہ و فساد اور دفع شر کے لیے جو اہل حدیث نے اس مسجد میں نماز جمعہ علیحدہ شروع کی ہے۔ تو اس وجہ سے یہ مسجد ضرار نہیں ہو سکتی، اس واسطے کہ جب کسی مسجد میں نماز پڑھنے سے لوگ روکتے ہیں اور فتنہ و شر و فساد کرتے ہوں تو دفع شر و فساد کی غرض سے علیحدہ مسجد بنانا اور اس میں علیحدہ نماز قائم کرنا جائز و درست ہے۔ دیکھو جب مشرکین مکہ صحابہ رضی اللہ عنہ کو بیت اللہ شریف میں نماز سے روکتے تھے اور نماز ادا کرنے سے دیتے تھے تو ابو بکر رضی اللہ عنہ نے اپنے مکان کے صحن میں ایک مسجد بنائی تھی۔ اور اس میں نماز ادا کرتے تھے، جیسا کہ صحیح بخاری میں موجود ہے۔ واللہ تعالیٰ اعلم
(حررہ احمد عفی عنہ،سید محمد نذیر حسین، فتاویٰ نذیریہ جلد اول ص۲۱۴ تاص۲۱۶)