سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(13) حیض اور نفاس کی مدت کتنی ہے؟

  • 24023
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-27
  • مشاہدات : 4113

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

’المحلّٰی‘‘ (اُردو) جلد دوم ’’کتاب الحیض والاستحاضۃ‘‘ میں ہے کہ ثقہ راوی نے اسے خبر دی کہ ایک عورت کو سترہ دن حیض آیا کرتا تھا امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ   فرماتے ہیں کہ ہم نے زیادہ سے زیادہ مدت سترہ دن ہی سنی ہے۔ آل ماجشون کی عورتوں کی بابت روایت ہے کہ ان کو سترہ دن حیض آتا تھا۔(ص:۹۷) کیا یہ روایات صحیح ہیں؟

نیزامام ابن حزم رحمہ اللہ   آگے چل کر فرماتے ہیں، نفاس کی مدت سات دن سے زیادہ نہیں۔ پھر اس باب کے آخر میں یعنی تقریبا تین صفحے بعد لکھتے ہیں: ’’اس کی مدت اور حکم سب حیض کی طرح ہے‘‘ حالانکہ آپ رحمہ اللہ ’’حیض سترہ دن تک‘‘ کے قائل تھے ۔ ان کے اقوال میں تضاد ہے! ازراہِ کرم دور فرما دیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اصل بات یہ ہے کہ امام ابن حزم رحمہ اللہ   کے نزدیک اکثر مدتِ حیض و نفاس کے بارے میں کوئی روایت مرفوع متصل بسندِ صحیح ثابت نہیں ہو سکی۔ دونوں کے احکام چونکہ ایک جیسے ہیں اس لیے عادۃً مدتِ حیض کا اعتبار کرکے نفاس کی مدت سات دن قرار دی ہے پھر بعض عورتوں کے افعال و تجربات کی بناء پر اکثر مدتِ حیض سترہ دن کے قائل ہوگئے، لیکن مدتِ نفاس کو عادت پر برقرار رکھا۔ باعثِ تعجب یہ ہے کہ جن آثار پر انھوں نے اعتماد کیا وہ بھی محلِ نظر ہیں۔ چنانچہ فرماتے ہیں:

’ قَد رُوِیَ مِن طَرِیقِ عَبدِ الرَّحمٰنِ بنِ سَعدِیٍّ اَنَّ الثِّقَةَ أَخبَرَهٗ…۔‘ الخ(۱/۳۷۶)

اہل علم کے ہاں یہ بات معروف ہے کہ لفظ ’’رُوِیَ‘‘ بصیغہ مجہول اس اثر کے ضعف کی طرف اشارہ ہے۔ نیز لفظ’’الثقۃ‘‘سے راجح مسلک کے مطابق روایت قابلِ اعتماد نہیں ٹھہرتی جب تک راوی کے نام کی تصریح نہ ہو۔ پھر ا س کا حجت ہونا کیونکر ضروری ہے۔پھر امام احمد رحمہ اللہ  سے مروی اثر بھی بصیغۂ مجہول ہے۔ مزید آنکہ امام احمد رحمہ اللہ   سے مشہور روایت پندرہ دن کی ہے سترہ کی نہیں۔ ملاحظہ ہو! مغنی لابن قدامۃ مع الشرح الکبیر (۱/۲۲۴) اگرچہ بسندِ صحیح یہ مدت بھی نبیﷺ سے ثابت نہیں۔ ملاحظہ ہو! التلخیص الحبیر(۱/۲۳۲)

واضح ہو کہ حیض ماہواری کے خون کا نام ہے، جب کہ استحاضہ بیماری کا خون ہے، جو رَگ پھٹنے سے آتا ہے اس کی کوئی حد بندی نہیں۔ اس اعتبار سے عورتوں کی تین قسمیں ہیں۔

۱۔         مستحاضہ معتادہ چاہے ممیزہ ہو یا غیر ممیزہ۔

(یعنی استحاضہ عادت بن چکا ہے، خونوں میں امتیاز کے قابل ہو یا نہ ہو۔)

یہ عورت ایام حیض میں اپنی عادت کی طرف رجوع کرے، حدیث میں ہے:

’ اُمکُثِی قَدرَ مَا کَانَت تَحبِسُكِ ۔‘1

۲۔        مبتدأۃ ممیزہ‘‘ جو ابتداء سے خون میں امتیاز کر سکے۔ یہ تمیزپر عمل کرے، حدیث میں ہے:

’ اِذَا کَانَ دَمُ الحَیضَةِ فَإِنَّهٗ أَسوَدُ ۔‘2

یعنی ’’خون کے رنگ کو دیکھ کر فیصلہ کرے کونسا خون ہے؟

۳۔        عادت اور تمیز دونوں مفقود ہوں اس کے ایامِ حیض چھ یا سات دن ہیں۔ جس طرح حضرت حمنہ رضی اللہ عنہا  کی روایت میں ہے۔(العون:۱/۱۱۷)

اور نفاس اس خون کو کہا جاتا ہے جو ولادت کے وقت آتا ہے۔ صحیح بات یہ ہے کہ اس کی اکثر مدت چالیس دن ہے اور اس سے قبل جب بھی طہارت حاصل ہو، عورت غسل کے بعد نماز شروع کردے۔ اس بارے میں وارد روایت کو علامہ البانی نے ’’إرواء الغلیل‘‘ میں حَسن قرار دیا۔(۱/۲۲۶)

اور صاحب ’’سبل السلام‘‘ فرماتے ہیں:فَهٰذِهِ الأَحَادِیثُ یَعضُدُ بَعضُهَا بَعضًا ۔‘ (۱/۱۰۵)

’’یہ تمام احادیث ایک دوسری کو تقویت دیتی ہیں۔‘‘

نیز امام ترمذی رحمہ اللہ  اپنی جامع میں فرماتے ہیں:

’ وَ قَد أَجمَعَ أَهلُ العِلمِ مِن أَصحَابِ النَّبِیِّ ﷺ وَالتَّابِعِینَ، وَ مَن بَعدِهَم، عَلٰی أَنَّ النُّفَسَاءَ تَدَعُ الصَّلٰوةَ أَربَعِینَ یَومًا إِلَّا أَن تَرَی الطُّهرَ قَبلَ ذٰلِكَ، فَإِنَّهَا تَغتَسِلُ وَ تُصَلِّی۔ فَإِذَا رَأَتِ الدَمَ بَعدَ الأَربَعِینَ۔ فَإِنَّ أَکثَرَ أَهلِ العِلمِ قَالُوا: لَا تَدَعُ الصَّلٰوةَ بَعدَ الأَربَعِینَ۔ وَ هُوَ قَولُ أَکثِر الفُقَهَاءِ۔‘ (عون المعبود:۱/۱۲۳)

صحابہ ، تابعین اور ان کے بعد کے اہل علم کا اس بات پر اجماع ہے کہ نفاس والی عورت چالیس دن تک نماز چھوڑے رکھے، اِلَّایہ کہ اس سے پہلے ہی اسے طہر(پاکی)نظر آجائے۔ چنانچہ (ایسی صورت میں) وہ غسل کرے گی اور نماز پڑھے گی۔ البتہ اگر چالیس دن کے بعد بھی اسے خون نظر آتا رہے تو پھر چالیس دن کے بعد وہ نماز نہیں چھوڑے گی اور یہی اکثر فقہاء کا مذہب ہے۔‘‘

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ حافظ ثناء اللہ مدنی

كتاب الطہارۃ:صفحہ:90

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ