سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(43) زمین کے طبقات اور ہر طبقہ میں نوع انسانی اور انبیاء کی بعثت کی حقیقت

  • 24010
  • تاریخ اشاعت : 2024-11-03
  • مشاہدات : 6704

سوال

(43) زمین کے طبقات اور ہر طبقہ میں نوع انسانی اور انبیاء کی بعثت کی حقیقت

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ایک شخص کہتا ہے کہ زمین کے سات طبقے ہیں اور ہر طبقے میں سات طبقون میں سے نوع انسان اور ان کے پیغمبر اس پہلے طبقے کے پیغمبروں کی طرح آدم علیہ السلام سے لے کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تک موجود ہیں اور جس طرح نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اوپر والے طبقے کے پیغمبروں کے خاتم ہیں اسی طرح چھ خاتم الانبیاء اور زمین کے چھ طبقات میں موجود ہیں۔ اور دلیل حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت سے لیتا ہے جو " اللَّـهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ ۔۔۔ (سورة الطلاق: 12)" کی تفسیر میں ان سے مروی ہے:

في كل ارض آدم كآدمكم و نوح كنوحكم و ابراهيم كابراهيمكم و عيسيٰ كعيساكم و نبي كنبيكم (فتح الباری 6/293)

یعنی ہر زمین میں تمہارے آدم کی طرح ایک آدم ہے اور تمہارے نوح کی طرح ایک اور نوح ہے اور تمہارے ابراہیم کی طرح ایک ابراہیم ہے اور تمہارے عیسیٰ کی طرح ایک عیسیٰ ہے اور ایک نبی تمہارے نبی کی طرح ہے۔ (ابن کثیر 4/495)

اور تفسیر جلالین کی اس عبارت سے جو آیت " يَتَنَزَّلُ الْأَمْرُ بَيْنَهُنَّ " کے ذیل میں امر کی تفسیر وحی کے ساتھ کر کے لکھی ہے وہ عبارت یہ ہے: " ينزل به جبريل من السماء السابعة إلي الارض السابعة " (جلاء العین ص 476) یعنی جبرائیل علیہ السلام وحی لے کر ساتویں آسمان سے ساتویں زمین تک اترتے ہیں۔ اور کہتا ہے کہ: اصول فقہ کے اس قاعدے کہ "خبر آحاد سے آیت کی تخصیص جائز ہے یہ آیت " وَلَـٰكِن رَّسُولَ اللَّـهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ " کی مخصص ہے یہ مسئلہ کس طرح سے ہے بیان فرمائیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

زمین کے سات طبقات کی دلیل:

زمین کا آسمانوں کی طرح سات طبقے ہونا آیت مذکورہ سے بلاشبہ ثابت ہے، اور مکمل آیت قرآن مجید کے اٹھائیسویں پارے کی سورہ طلاق میں اس طرح ہے:

﴿اللَّهُ الَّذى خَلَقَ سَبعَ سَمـٰو‌ٰتٍ وَمِنَ الأَرضِ مِثلَهُنَّ يَتَنَزَّلُ الأَمرُ بَينَهُنَّ لِتَعلَموا أَنَّ اللَّهَ عَلىٰ كُلِّ شَىءٍ قَديرٌ وَأَنَّ اللَّهَ قَد أَحاطَ بِكُلِّ شَىءٍ عِلمًا ﴿١٢﴾... سورة الطلاق

اللہ وہ ہے جس نے سات آسمان بنائے اور اس کے مثل زمین بھی۔ اس کا حکم ان کے درمیان اترتا ہے تاکہ تم جان لو کہ اللہ ہر چیز پر قادر ہے اور اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کو باعتبارِ علم گھیر رکھا ہے۔

اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی مرفوع حدیث جو بخاری میں ہے:

" من ظلم قيد شبر من الارض طوقه من سبع ارضين " ([1])

جو کوئی کسی کی زمین سے بالشت بھر ظلم سے لے گا ساتوں زمینوں میں سے اتنی زمین اس کے گلے میں طوق بنا کر ڈال دی جائے گی۔

اور سالم کی حدیث اپنے باپ سے مروی ہے انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

" من أخذ شيئا من الارض بغير حقه خسف به يوم القيامة إلي سبع ارضين " ([2])

جو شخص زمین سے کچھ ناحق حاصل کر لے تو قیامت کے دن اس کو ساتوں زمینوں تک دھنسایا جائے گا۔

یہ دونوں حدیثیں بھی زمین کے سات طبقات ہونے پر دلالت کرتی ہے۔

طبقات ارض کی کیفیت:

امام شوکانی نے تفسیر ([3]) آیت مذکورہ کے ذیل میں لکھا ہے کہ: اس آیت میں اس بات کی تصریح ہے کہ آسمان سات ہیں لیکن زمین کی تعداد میں اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے " وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ " تو بعض نے کہا " مِثْلَهُنَّ " سے مراد تعداد میں آسمان کی مانند ہونا ہے۔ اور بعض نے کہا: موٹائی زمین، آسمان کی مثل ہونا مراد ہے۔ اور صحیح یہ ہے کہ زمینیں بھی آسمان کی طرح سات ہیں۔ اور یہ مضمون صحیح حدیث سے ثابت ہو چکا ہے۔ امام رازی کہتے ہیں: حق یہ ہے کہ عدد مخصوص کا ذکر کرنا زائد پر دلالت نہیں کرتا۔ ([4])

اور اس میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ جسے حکماء نے ذکر کیا ہے کہ زمینیں سات سے زیادہ ہیں اور ہم یہ کہتے ہیں کہ اللہ اور اس کے رسول سے ہمارےاس سات کے عدد کے سوا کچھ ثابت نہیں سو ہم اسی پر اقتصاد کرتے ہیں اور اضافے کو اس وقت تک نہیں مانتے جب تک شرع کے طریق سے ثابت نہ ہو اور شرع میں زائد کا کچھ ذکر نہیں، کلام الشوکانی، اور جمہور علماء کا یہی مذہب ہے۔

ضحاک اور بعض متکلمین نے کہا کہ: یہ سات طبقے آپس میں ملے ہوئے ہیں ان میں فاصلہ نہیں ہے اور ساتوں زمینیں تو بر تو ہیں۔ اور بعض نے سات زمینوں کی تاویل سات ولائتوں اور سات سیاروں وغیرہ سے کی۔ چنانچہ فتح الباری میں ابن تین سے نقل کیا۔ ([5]) اور قسطلانی اور کمالین میں انہی اقوال کو ذکر کیا ہے۔ لیکن صحیح یہ ہے کہ ساتوں طبقے جدا جدا ہیں اور ہر زمین میں اتنی اتنی مسافت ہے جتنی زمین اور آسمان میں ہے۔ چنانچہ امام احمد، ترمذی اور نسائی کی روایات اس پر دلالت کرتی ہیں اور تاویلات مذکورہ کا قول قرآن و حدیث سے مردود ہے۔ ([6]) جیسے ابن تین اور قرطبی وغیرہ ائمہ نے کہا ہے۔

زمین کے طبقات میں نوع بشر اور انبیاء کا عدم وجود:

لیکن آیت اور احادیث مذکورہ سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ زمین کے طبقات میں سے ہر طبقہ میں نوع بشر اور ان کے انبیاء موجود ہیں۔ بلکہ قرآن مجید اور حدیث شریف میں جو کہ مدارِ اثبات و نفی، رد و قبول اور ہر چیز سے متعلق عقیدہ و عمل وغیرہ، اور انہیں میں حضرت آدم علیہ السلام کی پیدائش جن کی ہم اولاد ہیں ان کے بہشت میں داخل کرنے زمین پر بھیجنے اور فرشتوں کا ان سے سجدہ کروانے کا واقعہ مذکور ہے، اور دوسرے آدموں، ان کی ذریت، باقی طبقات کے پیغمبروں اور ان کی امتوں کے حالات و قصے مذکورہ نہیں ہیں۔ یہاں تک کہ دوسرے نوع انسان، ان کے آدموں اور خواتم النبین کی بو تک قرآن و حدیث کی دلالۃ النص تو کیا بلکہ اشارۃ النص سے بھی نہیں پائی جاتی۔ اور حدیث کی تمام کتب، صحاح، سنن، معاجم اور مسانید وغیرہ، ان عالموں اور آدموں کے بیان سے خالی ہیں۔ کوئی ضعیف حدیث بلکہ موضوع بھی اس باب میں اس تفصیل سے جو سوال میں گزری ہے اسلام کی معتبر کتب میں نہیں پائی جاتی، مرفوع حدیث کا تو ذکر ہی کیا ہے۔

اگرچہ بمضمون کی آیت ﴿وَمَا يَعْلَمُ جُنُودَ رَبِّكَ إِلَّا هُوَ ۔۔۔ (سورة المدثر: 31)" اور تیرے رب کے لشکروں کو اس کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ اس مخلوقات موجودہ محسوسہ میں عالم کا حصر نہیں کر سکتے، بلکہ اللہ تعالیٰ بموجب فرمان واجب الاذعان﴿أَوَلَيْسَ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ بِقَادِرٍ عَلَىٰ أَن يَخْلُقَ مِثْلَهُم ۚ بَلَىٰ وَهُوَ الْخَلَّاقُ الْعَلِيمُ ﴿٨١﴾ ۔۔۔ (سورة يٰس: 81)" ترجمہ: کیا جس (اللہ) نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اس میں اتنی قدرت نہیں کہ ان جیسے آدمی دوبارہ پیدا کر دے کیوں نہیں وہ بڑا پیدا کرنے والا بڑے علم والا ہے۔

اور بحکم

﴿وَإِذا شِئنا بَدَّلنا أَمثـٰلَهُم تَبديلًا ﴿٢٨﴾... سورة الدهر

اور ہم جب چاہیں ان کے عوض ان جیسے اوروں کو بدل لائیں۔

یعنی اس عالم جیسے صد جہاں بلکہ کل ممکنات کے پیدا کرنے پر قادر ہے: جمل حاشیہ جلالین میں اللہ تعالیٰ کے فرمان: " لِتَعْلَمُوا أَنَّ اللَّـهَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ ۔۔۔ (سورة الطلاق: 12)" کے ذیل میں جو آیت مذکورہ کی جز ہے، لکھا ہے: یعنی اللہ تعالیٰ، قدیر، کامل قدرت والا ہے، پس اس جہاں جیسا اور جہان، اور اس سے بھی عجیب جہاں اور بے انتہاء عوالم عمدہ سے عمدہ پیدا کر سکتا ہے، اور اس دعویٰ کی دلیل اس جہاں کا پیدا کرنا ہے کیونکہ جو ذار ایک ذرہ کو عدم سے پیدا کرنے پر قادر ہے وہ اس پر بھی قادر ہے کہ اس سے ادنیٰ چیز اور اس جیسی اور اس سے عمدہ اور عمدہ سے عمدہ بے انتہاء چیزیں پیدا کر لے۔ اس لئے پیدا کرنے میں تھوڑے اور بہت، اچھے اور برے میں فرق نہیں۔

﴿ما تَرىٰ فى خَلقِ الرَّحمـٰنِ مِن تَفـٰوُتٍ ...﴿٣﴾... سورة الملك

"کیا رحمٰن کے بنانے میں کچھ فرق دیکھتا ہے۔"

لیکن قدرت کے عام ہونے سے یہ لازم نہیں آتا کہ بالفعل خارج میں واقع ہوں۔ کیونکہ ماتریدیہ کے نزدیک قدرت اور تکوینِ متغائر دو صفتیں ہیں اور قدرت کا اثر یہ ہے کہ مقدور کا قادر سے بالنظر الی ذاتہ صادر ہونا ممکن ہے، یہ ضروری نہیں کہ مقدور بالفعل واقع بھی ہو، اور تکوین کا اثر مکون کا بالفعل واقع اور موجود ہو جاتا ہے۔ اور یہ بات ظاہر ہے کہ زمین کے باقی چھ طبقات میں اس جہاں کی مثل اور جہانوں کے خارج میں موجود ہونے کی اللہ تعالیٰ نے ہمیں خبر نہیں دی اور جس چیز پر کلام الٰہی اور سنت رسالت صلی اللہ علیہ وسلم ناطق نہیں تو ایک مومن مسلمان کے اس کو اپنی طرف سے ثابت کرنے کے کیا معنی؟ سو جو اس کا مخالفت دلائل رکھتا ہو وہ اس کی وضاحت کرے۔ و دونه، خرط القتاد

اور اجماع و قیاس جو کہ اکثر اہل علم کے نزدیک اصول اربعہ میں سے ہیں اس مسئلہ کے ساتھ اس کا کوئی تعلق نہیں اس لئے کہ یہ مسئلہ " باب بدء الخلق " سے ہے اور اس میں قیاس و اجتہاد کا کوئی دخل نہیں، قیاس اور تخمین بلکہ خود اجماع و اجتہاد ان جیسے مسائل میں کسی حکم کا اثبات نہیں کر سکتے، کیونکہ ان کے لئے بھی قرآن و سنت سے کوئی سہارا درکار ہے بلکہ قرآن مجید میں سموات کی جمع اور ارض کے مفرد لانے سے اس فرمان الٰہی کی مثل: " خَلَقَ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ " کو چھوڑ کر ساتوں زمینوں میں دوسرے عالموںم، آدموں اور خواتیم کے نہ ہونے کا پتہ چلتا ہے، سو اس مسئلہ کا ثبوت شرع کے چاروں دلائل میں سے کسی دلیل سے نہیں ہو سکتا۔

حضرت ابن عباس کی طرف منسوب روایت کے دس جوابات:

اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت جو کہ سوال میں مذکور ہے:

اول:

تو اس میں کلام ہے کہ: یہ حدیث نہیں بلکہ ابن عباس رضی اللہ عنہ کا اثر ہے یعنی ان کا قول ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان نہیں۔ اور ما نحن فيه  میں حجت پیغمبر معصوم اور مخبرِ صادق کا قول محکم ہو سکتا ہے نہ کہ صحابه و من بعدهم کے اقوال خصوصا جبکہ نص صحیح پر کتاب و سنت سے اس کا اعتماد نہ ہو۔

دوم:

یہ کہ صرف ابن عباس رضی اللہ عنہ اس تفسیر میں منفرد ہیں، صحابہ و تابعین میں سے اس قول میں ان کا کوئی موافق نہیں اور کبھی حکم شرعی کی بنا منفرد روایت اور قول شاذ پر نہیں ہو سکتی۔

سوم:

یہ کہ قرآن مجید کی تفسیر جو حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے منقول ہے اکثر کی سند ان کی بارگاہِ بلند تک متصل اور مسلسل نہیں پہنچتی۔ اکثر میں یہ بات ہے کہ ان کی طرف صرف منسوب ہے اور حقیقت میں یہ کسی اور کی تفسیر ہے، اسی لئے محققین اہل تفسیر اس پر پورا اعتماد نہیں کرتے، اور دوسرے ائمہ فن کی شہادت کے بغیر اسے قبول نہیں کرتے۔ ہاں! جو ابن عباس رضی اللہ عنہ سے صحیح بخاری وغیرہ میں صحیح سندوں سے ثابت ہو گیا وہ بہرحال مقبول ہے اور اس اثر کا ان کتب صحاح اور سنن میں کوئی پتہ و نشان نہیں۔

چہارم:

یہ کہ اس اثر کا متن مضطرب ہے جو سوال میں مذکور ہے، وہ حاکم کے نزدیک اس اثر سے مروی ہے اور عبد بن حمید اور ابن المنذر کے نزدیک اس لفظ سے ہے:

ما يومنك ان اخبرك بها فكتفر

یعنی تجھے کس چیز نے اس سے بے خوف کیا کہ اگر میں تجھے اس آیت کی تفسیر کر دوں تو تو انکار کر دے۔

اور ابن خزیمہ کے نزدیک اس لفظ سے مروی ہے:

لو حدثتكم بتفسيرها لكفرتم و كفركم تكذيبكم بها

اگر تم کو اس کی تفسیر سناؤں تو تم منکر ہو جاؤ اور تمہارا انکار اس کا نہ ماننا ہے۔

اور اضطراب روایت بھی اکثر اہل علم کے نزدیک جرح کا سبب ہے۔

پنجم:

یہ کہ اس اثر کے روایت کرنے والوں سے کسی نے اس کو صحیح نہیں کہا بجز حاکم کے مستدرک میں۔ اور حاکم کی تصحیح دوسرے فن کے اماموں کی شہادت کے سوا علمائے حدیث کے نزدیک مقبول نہیں۔ بستان المحدثین میں ہے کہ: بہت سی وہ احادیث جن کو حاکم نے مستدرک میں ان کی صحت کا حکم لگایا اور صحیحین کی احادیث کی مانند سمجھا اس کو بڑے علماء نے خطا کی جانب منسوب کیا اور اس کا انکار کیا۔ اس لئے امام ذہبی نے کہا: کہ کسی کو یہ جائز نہیں کہ حاکم کی تصحیح پر مغرور ہو جب تک وہ میرے تعقبات اور تلحیقات نہ دیکھ لے۔ انتہی

یہ حاکم کی مرفوع روایات کا حال ہے صحابہ کے آثار کا تو ذکر ہی کیا۔ اور خصوصا اس اثر کے بارے میں سیوطی نے تدریب الراوی شرح تقریب النووی میں کہا کہ: حاکم کے اس اثر کو صحیح کہنے سے مجھے ہمیشہ تعجب آتا رہا، یہاں تک کہ میں نے بیہقی کو دیکھا کہ اس نے بھی اس کے حق میں کہا کہ: اس کی اسناد صحیح ہے لیکن نہایت شاذ ہے۔ انتہی۔ غالبا بیہقی نے حاکم کے اعتماد پر اس کو صحیح کہہ دیا ہو گا مع ہذا اس میں شذوذ کی علت کو ثابت کر دیا اور کہا کہ مجھے اس روایت میں ابو الضحی کا کوئی متابع معلوم نہیں۔

اور اسی کی مثل شوکانی نے اپنی تفسیر میں ذکر کیا، تو شذوذ اور عدم متابعت کی وجہ سے اس اثر کی قوت کمزور ہو گئی اور بطورِ احتجاج کے ناقابلِ حجت رہا۔

ششم:

یہ کہ محققین اہل تفسیر اور اہل حدیث کے نزدیک یہ اثر اسرائیلیات سے ماخوذ ہے جیسا کہ ابن کثیر نے کہا۔ اور اسرائیلی روایت تصدیق اور قبول کے قابل نہیں اور اس پر ایسے احکام کی بنا نہیں ہو سکتی۔

ہفتم:

یہ کہ بہت کم مفسرین نے اس اثر کو آیت کریمہ کی تفسیر میں نقل کیا اور اکثر مفسرین نے اس کی پرواہ نہیں کی اور یہ دلیل اس اثر کے غیر مقبول اور غیر معتبر ہونے کو ظاہر کرتی ہے۔ اور کچھ مفسرین نے اس کو ذکر بھی کیا اور انہوں نے بھی اس سے اَوادِم ([7]) اور خَواتم کے وجود پر دلیل نہیں لی، بلکہ صرف زمین کے سات طبقے ہونے کی تائید میں لائے ہیں پس مطلوب ثابت نہ ہوا اور جو ثابت ہے وہ مطلوب نہیں۔

ہشتم:

یہ کہ اگر اس اثر کو صحیح بھی مان لیں، تب بھی مجمل غیر مبین ہے، اس سے معلوم نہیں ہوتا کہ یہ چھ طبقوں کے اوادم و خواتم زمانہ ابوالبشر حضرت آدم علیہ السلام اور زمانہ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم سے پیشتر تھے یا ان کے زمانہ یا ان کے زمانہ کے بعد ہوں گے اور مجمل روایت بدون بیان محل قبول اور بااعتماد نہیں۔

نہم:

یہ کہ اس کو صحیح تسلیم کرنے کے بعد بھی علماء نے اس کی تاویل کی ہے۔

قسطلانی کی رائے:

ارشاد الساری شرح صحیح البخاری میں بیہقی کا قول نقل کر کے رقمطراز ہیں کہ: اس میں یہ بحث ہے کہ اسناد کی صحت سے متن کی صحت لازم نہیں آتی۔ جیسا کہ اس فن کے ماہرین کے ہاں معروف ہے۔ سو کبھی ایسا ہوتا ہے کہ سند صحیح ہوتی ہے اور متن بھی شذوذ ہوتا ہے، یا ایسی علت جو اس کی صحت میں خارج ہے اور ایسے (یعنی عقائد کے) مسائل ضعیف احادیث سے ثابت نہیں ہو سکتے۔ اور اگر اس کی نقل کو صحیح مانا جائے تو اس پر محمول ہو گا کہ، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے اسے اسرائیلیات سے اخذ کیا ہے۔ اور اگر اس کے ثبوت کو مان لیا جائے تو احتمال ہے کہ اس کا یہ معنی ہو کہ، وہاں جن لوگوں کی اقتداء کی جاتی ہے وہ ان ناموں سے موسوم ہیں اور وہ رسولوں کے رسول ہیں جو جنوں کو اللہ کے پیغمبروں کی طرف سے تبلیغ احکام کرتے ہیں اور ہر ایک اس نبی کے نام سے بلایا جاتا ہے جس کی طرف سے تبلیغ کرتے ہیں۔ انتهي كلام القسطلاني

تو جب یہ ثابت ہو گیا کہ اس اثر، یعنی اس کے متن کے صحیح ہونے میں، بلکہ سند کے صحیح ہونے میں بھی کلام ہے تو اس سے استدلال درست نہ ہوا اور ایسے مسائل کے ثابت کرنے کے لئے روشن دلیل اور نصِ جلی چاہیے، ایسی جگہ مظنونات اور محتملات سے کام نہیں چلتا۔ اسی لئے ابن کثیر نے اس اثر کو امام ابن جریر رحمۃ اللہ علیہ کی طرف منسوب کر کے کہا: کہ یہ اور اس کی امثال جب ان کی سند معصوم (صلی اللہ علیہ وسلم) تک صحیح طور سے نہ پہنچے، تو انہیں مسترد کر دیا جاتا ہے، انتہی۔ ابن کثیر

دہم:

کہ روایت کی صحت میں شرط ہے کہ راوی ضابط ہو۔ اور عطاء بن سائب جس اثر کو ابو الضحی سے ابن عباس سے روایت کرتا ہے نووی رحمۃ اللہ علیہ نے شرح مسلم کے خطبہ میں اس کو اہل اختلاط سے شمار کیا۔ غرض کہ اس اثر میں جرح کے اسباب جیسے شذوذ اور عدمِ متابعت اور راوی کا اختلاط وغیرہ کثرت سے موجود ہیں، اور اس کی حقیقت اس سے زیادہ نہیں کہ ایک ضعیف اثر ہے جسے فحول علماء نے قبول نہیں کیا۔ پس ایسے بے پتے اثر پر کسی حکم کی بنا نہیں ہو سکتی، لیکن صاحبِ جلالین کا قول:

ينزل به جبريل من السماء السابعة إلي الارض السابعة ([8])

"جبرائیل علیہ السلام وحی کو لے کر ساتویں آسمان سے ساتویں زمین تک اترتے ہیں۔"

جس سے ظاہر میں تو اثر مذکور کی طرف کچھ اشارہ نکلتا ہے سو شیخ سلیمان جمل نے جلالین کے حاشیہ میں قول مذکور کے تحت لکھا ہے کہ ملا علی قاری نے کہا: ہم نے مفسرین میں سے اور کسی کا یہ قول نہیں پایا، جس نے اس امر کی تفسیر "وحی" کے ساتھ کی، اس نے " بَيْنَهُنَّ " کی تفسیر میں کہا: (اس اوپر کے درمیان جو پہلی ہے اور ساتویں آسمان کے درمیان جو سب سے اوپر ہے۔ اور ملا علی قاری کا یہ کہنا اس پر مبنی ہے کہ وحی تکلیف بالاحکام ہو اور وحی سے یہی معنی مراد لینا ضروری نہیں۔ اس لئے ممکن ہے کہ وحی سے النصرف في الكائنات مراد لیں، خطیب اور اکثر کی عبارت اس پر دلالت کرتی ہے کہ: وحی سے مراد "قضا اور قدر" ہے تو اس تفسیر پر " بَيْنَهُنَّ " سے اقصیٰ زمین کے درمیان جو سب سے نیچے ہے اور ساتویں آسمان کے درمیان جو سب سے اوپر ہے) مراد ہے۔ سو اللہ تعالیٰ کا امر اور قضا ان میں جاری ہے اور اس کا حکم ان کے درمیان نافذ ہے۔ انتھی، ([9])

اور اسی طرح قتادہ رحمۃ اللہ علیہ نے کہا، اس کی زمینوں میں سے ہر زمین میں اور آسمانوں سے ہر آسمان میں اس کی مخلوقات میں سے ایک نوع کی مخلوق ہے اور اس کے امر میں سے ایک امر ہے اور اس کی قضا میں سے ایک قضا ہے۔ ([10])

امام بغوی کی تفسیر میں ہے: امر سے مراد وہ ہے، اللہ تعالیٰ جو ان کے درمیان عجائبات تدبیرات کو ایجاد کرتا ہے۔ مثلا بارش اتارتا ہے، گھاس اگاتا ہے، دن اور رات لاتا، گرمی وجاڑا ظاہر کرتا، حیوانات مختلف صورتوں میں پیدا کرتا اور ان کو ایک حال سے دوسرے حال میں نقل کرتا ہے۔ انتھی

تفسیر رازی اور خازن میں بھی اس کی مثل لکھا ہے۔ اور یہی جمہور مفسرین کا قول ہے۔ ([11])

تو خلق و امر، قضا و قدر اور مختلف شکلوں والے حیوانات کے ہونے سے یہ متعین نہیں ہوتا کہ خلق اور حیوان بھی نوع انسان اور ان کے پیغمبر ہیں، بلکہ اگر " امر " کی تفسیر وحی کے ساتھ ثابت ہو جائے تو وحی سے مراد "الہام" ہو گا چنانچہ آیت:

﴿وَأَوحىٰ رَبُّكَ إِلَى النَّحلِ ... ﴿٦٨﴾... سورة النحل

"اور تیرے رب نے شہد کی مکھی کو حکم بھیجا۔"

کی تفسیر میں مفسرین نے لکھا ہے وہ وحی اصطلاحی مراد نہیں۔ اور آیت کریمہ سے یہ بات صریح ثابت ہوتی ہے کہ اس سے آسمان اور زمین کی تخلیق اور ان میں اللہ تعالیٰ کی قضا و قدر کا جاری ہونا، ان میں عرشِ الٰہی سے لے کر نیچے کی زمین تک اور اللہ تعالیٰ کی قدرت کے عام ہونے اور اس کے علم کا تمام مخلوقات کو محیط ہو جانے کا بیان مقصود ہے، نہ کہ وجود نوع انسانی اور ان کے پیغمبروں کا زمین کے طبقات کے نیچے ہونا مراد ہے۔

اس لئے متقدمین اور متاخرین میں سے کسی نے آیت مذکورہ کی یہ تفسیر نہیں کی۔ بجز ابن عباس رضی اللہ عنہ کے جس کی سند اور متن کا حال اوپر معلوم ہو چکا ہے اور اثر کی کیا حقیقت ہے کہ اس سے ایسے حکم اخذ کئے جائیں۔ ایسے مقام میں تو پیغمبر معصوم صلی اللہ علیہ وسلم کی مرفوع حدیث درکار ہے نہ کہ اثر موقوف جس کا اعتبار نہ ہو۔

خبرِ آحاد سے آیت کی تخصیص کا مفہوم:

اور جو سوال میں مذکور ہے کہ آیت کی تخصیص خبر آحاد سے جائز ہے اس کا جواب یہ ہے کہ: خبر احاد سے مراد جو آیت کی مخصص ہو سکتی ہے وہ مرفوع صحیح حدیث ہے نہ کہ اثر موقوف ضعیف، اسی لئے اصول فقہ کی کتابوں میں خبر احاد کی بحث کو، احتجاج بہ سنت کی قسم میں جو کتاب کے مقابل ہے، ذکر کرتے ہیں اور اس کی مثال میں صحیحین کی احادیث کا پتہ دیتے ہیں اور اس اثر کا سنن کی کسی کتاب میں نشان تک نہیں، چہ جائیکہ صحیحین میں ہوں۔ اور بالفرض اگر تسلیم کر بھی لیا جائے تو تب بھی اس اثر میں اور آیت " وَلَـٰكِن رَّسُولَ اللَّـهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ ۔۔۔ (سورۃ الاحزاب: 33)" میں کوئی اختلاف نہیں، تاکہ اسے اس کا مخصص مان لیا جائے۔ اسی لئے کہ زمین کے اوپر کے طبقہ کے رسولوں کا ثبوت آدم علیہ السلام سے لے کر خاتم النبیین صلي الله عليهم وآلهم واصحابهم اجمعين تک جمہور اہل علم بلکہ سب اہل اسلام کے نزدیک متفق علیہ ہے، اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اس طبقہ کے سب رسولوں کا خاتم ہونا نص مذکور کے حکم سے ثابت ہے چنانچہ جمع کا صیغہ یعنی " نَّبِيِّينَ " اور اس پر الف لام استغراق کا داخل ہونا اس معنی کا فائدہ پہنچانا ہے، اور دوسرے آدموں اور خاتموں کا وجود ثابت نہیں۔ اور نص مذکور کے مدلول پر سب مجتہدین کا بلکہ تمام مسلمانوں کا اتفاق ہے پس آدموں اور خاتموں کا زمین کے باقی طبقوں میں ثابت کرنا شرح کا حکم نہیں اور اس قول پر کوئی علمی دلیل موجود نہیں ہے۔

اور اہل اصول میں سے کوئی اس بات کا قائل نہیں کہ نصوص کی تخصیص آثارِ موقوفہ سے ہو سکتی ہے۔ اور حق یہ ہے کہ ایسے مسائل میں خوض و تعمق کرنا غلوِ ممنوع بلکہ فضول کلام، لغو قول اور حدیث خرافہ کے باب سے ہے، سو اس کا قائل اور اس میں خوض کرنے والا قابل التفات نہیں۔ ([12])


[1] فتح الباری: 6/292، مسلم: 2/33، ابن کثیر 4/494

[2] فتح الباری 6/293، مسلم 2/33

[3] فتح القدیر 4/240

[4] تفسیر رازی 8/230

[5] فتح الباری 6/293

[6] تفسیر قرطبی 28/175

[7] آوادم، آدم کی جمع، خواتم، خاتم کی جمع جو کہ خاتم النبیین میں ہے۔ (خلیق)

[8] جلالین: 476، طبع مصر، سورت طلاق

[9] خازن 4/377،378

[10] خازن 4/378

[11] قرطبی 28/176، تفسیر بغوی، مع ابن کثیر 8/401

[12] مولانا محمد اسماعیل سلفی رحمہ اللہ تحریر کرتے ہیں کہ دینی مسائل بھی اکثر خبر واحد سے ہم تک پہنچتے ہیں۔ اور دنیا کے بیشتر اطلاعات میں بھی خبر واحد ہی کارفرما ہے۔

حکومت سے لے کر عوام الناس تک اگر خبر واحد پر اعتماد کرنا ترک کر دیں تو کاروبار کا پورا کارخانہ برباد اور تباہ ہو کر رہ جائے۔

دوسری جگہ لکھتے ہیں کہ اگر خبر واحد شرعا مستند نہ ہوتی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات پر ضرور کوئی نہ کوئی پابندی لگائی جاتی۔ (حجیت حدیث ص 110۔ 111)

مولانا مناظر احسن گیلانی نے خبر واحد کو حجت قرار دیا ہے۔ (مذہبی افسانہ بندیاں)

امام ابن حزم نے لکھا ہے کہ پہلی صدی ہجری میں خبر واحد بلا انکار قبول کی جاتی تھی، اہل سنت، خوارج، شیعہ، قدریہ، سب اسے قبول کرتے تھے۔ پہلی صدی کے بعد متکلمین اور معتزلہ نے اس میں اجماع امت کی مخالفت کی۔ (احکام الاحکام 1/115) (جاوید)

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ نواب محمد صدیق حسن

صفحہ:388

محدث فتویٰ

تبصرے