السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
طاعون اور وبا ایک ہی چیز ہے یا مختلف ہیں؟ اور ان دونوں کی کیا حقیقت ہے؟ اور اسے دور کرنے کے لئے دعائے قنوت کی جا سکتی ہے یا نہیں؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
قاموس کی فصل "طا" اور باب "نون" میں لکھا ہے: الطاعون، الوباء اور باب "ھمزہ" اور فصل "واؤ" میں ہے کہ: الوباء، الطاعون أو كل مرض عام یعنی وبا طاعون ہے یا مرض عام۔ اور اس وبا کا نام ہے جو ہوا کے فساد کی وجہ سے اٹھے اور طبائع کے فاسد ہونے کا سبب بن جائے۔
اور صراح میں ہے: طاعون بضم عين مهملة ۔ "وبا کی موت" کے معنی میں ہے۔ اور منتهي الارب میں ہے: " وبا محركة " مقصور بھی آتا ہے اور ممدود بھی۔ عام بیماری یا طاعون کو کہتے ہیں۔
اور غیاث میں ہے: طاعون اور ورم ہے جو کہ خصیہ، پستان، بغل، یا ران کی جڑ میں زہریلے مادے سے عضو کو فاسد کر دیتا ہے، قے، متلی، بے ہوشی اور خفقان اسی کے ساتھ ہوتا ہے۔ اور نفائس اللغات میں ہے: جو مرگ انسانوں میں واقع ہو اسے طاعون اور وباء کہتے ہیں اور فارسی میں مرگا، مرگ اور مرگی کہتے ہیں اور مرگی، مرگ کی طرز نسبت ہے۔ صائب کہتا ہے
سفر نہ کر دن ازاں کشور از گراں جانی ست
کہ مرگے دل و قحط غذاے روحانی ست ([1])
(فتح الباری 10/180/193، مسلم 3/1522، مصابیح 1/520)
اور اگر چوپایوں میں ہو تو عربی میں اس کو "مؤتان" بضم میم و سکون واو اور فارسی میں مرگا، مرگ ستوران اور ترکی میں "پوت" کہتے ہیں۔
لیکن اس کی تفسیر میں اطباء کے اقوال میں یہ ہے: صاحب بحر الجواہر نے کہا کہ: چھوٹی سی پھنسی جو کہ سرخ یا سیاہ لوبیا کے دانہ کے برابر ہوتی ہے جس میں بہت جلن اور سوزش ہوتی ہے۔ حدود الامراض میں کہا: یہ جنگلی بیر کی مقدار نیلے رنگ کی ایک پھنسی ہوتی ہے نیز جلن اور وبائی تپ اس کے ساتھ لازم ہوتا ہے۔
اور بوعلی سینا نے کہا: طاعون ایک سمی مادہ ہے جس سے دمِ مہلک پیدا ہوتا ہے اور اکثر بغلوں کے نیچے یا کانوں کے پیچھے نکلتی ہے اور اس کا سبب روی خون ہے جو زہریلا مادہ بن جاتا ہے اور عضو کو فاسد کر دیتا ہے اور اس کے سبب دل کی کیفیت بھی فاسد ہو جاتی ہے اور غشی اور خفقان کی حالت پیدا ہوتی ہے اور اُس عضو میں ورم ہوتا ہے جو بالطبع بہت ضعیف ہو۔ (المواھب اللدینہ 3/490)
اور برا طاعون وہ ہے جو اعضائے رئیسہ میں پیدا ہو اور سیاہ رنگ والا غالبا مہلک ہے اور جس میں بچنا مشکل ہے اور سرخ رنگ والے میں اکثر بچ بھی جاتے ہیں اس کے بعد زرد رنگ والا ہے، اور طاعون اکثر وبا کے زمانہ میں پیدا ہوتا ہے اس لئے ایک کا نام دوسرے پر بولا جاتا ہے۔ (مواہب 3/490)
قاضی ابوبکر بن عربی نے کہا کہ: "طاعون ایسی بیماری ہے کہ اکثر روح کو بجھا دیتی ہے اور اسے طاعون اس لئے کہتے ہیں کہ یہ عام ہوتی ہے اور جلدی قتل کر دیتی ہے۔ (مواہب 3/489)
اور قاضی عیاض رحمۃ اللہ علیہ نے کہا کہ: یہ ایک پھڑیا (پھنسی) ہوتی ہے جو بدن میں نکلتی ہے اور عام ہونے کے ساتھ ساتھ مہلک بھی ہے اس کو ہلاک کرنے میں نیزہ مارنے کے ساتھ مشابہت دے کر طاعون بولتے ہیں۔
نووی رحمۃ اللہ علیہ نے تہذیب میں کہا کہ: یہ ایسی پھنسی ہے جو گرمی کی وجہ سے بدن میں نکلتی ہے جس میں ورم سخت درد، سوزش اور جلن کے ساتھ اپنے آس پاس کو سیاہ سرخ اور سبز کر دیتی ہے جس کے ساتھ خفقان اور قے بھی ہوتی ہے اور کبھی ہاتھوں انگلیوں اور باقی جسم میں بھی نکلتی ہے۔ (مواہب 3/490)
اور حافظ ابن القیم رحمۃ اللہ علیہ: نے ھدی نبوی (یعنی: زاد المعاد فی ھدی خیر العباد) میں کہا کہ طاعون لغت کی رو سے ایک وبا کی قسم ہے۔ اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث میں ہے کہ انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ طاعون کیا چیز ہے؟ تو آپ نے فرمایا کہ ایک غدود اونٹ کی غدود کے مشابہ ہوتی ہے جو گلے اور بغلوں میں نکلتی ہے اور چونکہ طاعون اکثر و باخیز شہروں میں ہوتا ہے اس لئے اس کو وبا بھی کہہ دیتے ہیں، جیسے خلیل نے کہا، وبا طاعون ہے۔ اور بعض نے کہا ہر مرض عام ہے۔ اور تحقیق یہ ہے کہ: وبا اور طاعون عموم و خصوص ہے پس ہر طاعون تو وبا میں داخل ہے اور ہر وبا طاعون نہیں۔ اور اسی طرح دوسری عام امراض طاعون سے عام ہیں اور اسے شامل ہیں اور "طواعین" ان زخموں کو کہتے ہیں جو طاعون کے اثر سے ہوتے ہیں خود طاعون کو نہیں کہتے۔ لیکن اطباء جب ظاہر آثار کے بغیر اس کی حقیقت کو نہ پا سکے تو انہیں زخموں کو طاعون کہنے لگے۔
اور طاعون تین چیزوں سے عبارت ہے:
ایک: اثر ظاہر، جسے اطبا نے ذکر کیا۔
دوسرا: وہ مرگ جو اس کے سبب سے پیدا ہو۔ اور یہی حدیث صحیح سے مراد ہے، " الطاعون شهادة لكل مسلم " یعنی طاعون ہر مسلمان کے لئے شہادت ہے۔
تیسرا: اس بیماری کی علت فاعلی۔ (زاد المعاد 4/39)
مواہب لدنیہ میں ہے کہ: اس امر کی دلیل کہ طاعون وبا کے علاوہ ہے، یہ ہے کہ، طاعون رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مدینہ منورہ میں نہیں آیا، اور حدیث شریف میں طاعون کی نسبت اس مقام شریف کی طرف واقع نہیں ہوئی، حالانکہ وبا کی نسبت اس کی طرف ہوئی ہے۔ اور بعض نے طاعون کی تفسیر "موت کثیر" کے ساتھ کی ہے۔ (مواہب اللدنیہ 3/491)
میں کہتا ہوں کہ:
حدیث کے الفاظ یہ ہیں۔ إن المدينة لا يدخلها الطاعون ... ۔۔۔ (فتح الباری 4/95، 10/179) یعنی مدینہ منورہ میں طاعون داخل نہیں ہو گا۔ اور صحیحین میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہتی ہیں " قدمنا المدينة وهي اوبا ارض الله ..." ۔۔۔ یعنی ہم مدینہ میں آئے اور وہ اللہ کی تمام زمین کی نسبت زیادہ وبا ناک تھی۔ اور صحیحین میں عرنيين کی حدیث سے بھی مروی ہے: إنهم قالوا هذه أرض و بيئة ۔۔۔ انہوں نے کہا یہ وبا ناک زمین ہے۔ اسی طرح حضرت امیر المومنین عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں مدینہ منورہ میں موت کثیر اور وبا واقع ہوئی مگر طاعون نہ ہوا۔
مواہب لدنیہ میں ہے کہ طاعون کی حقیقت یہ ہے خون جوش میں آ کر کسی عضو پر گر کر اس کو بگاڑ دیتا ہے اور وہاں ورم ہو جاتا ہے اور دوسرے امراض جو عام اور ہوا کے فساد سے پیدا ہو جاتے ہیں۔ طاعون کا اطلاق عمومِ مرض اور کثرتِ موت کے علاقہ سے ان پر بطور مجاز کے ہے، اور وبا کی حقیقت ہوا کے جو ہر کا بگڑ جانا ہے، جو مادہ روح ہے۔ (مواہب 3/489)
میں کہتا ہوں!
احادیث سے جو معلوم ہوتا ہے وہ یہ کہ "طاعون جنوں کا نیزہ مارنا ہے" (فتح الباری 10/181) جیسا کہ حدیث میں ہے: وخز أعدائكم من الجن یعنی تمہارے دشمن جنوں کا نیزہ مارنا ہے۔ (مسند احمد 4/395) اخرجہ احمد عن ابی موسیٰ الاشعری رضی اللہ عنہ۔ اور اس کی مثال طبرانی نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے۔ " وخز " واؤ اور خائے معجمہ کے ساتھ، ایسی چوک کو کہتے ہیں کہ جو پار نہ نکل سکے۔ اور یہ ایسا امر ہے کہ اس کو شارع علیہ السلام کی خبر دئیے بغیر جاننا ممکن نہیں، اور اس کی دریافت کی جانب عقل نہیں پہنچ سکتی۔ اس لئے اطباء نے اس کا ذکر نہیں کیا۔ اور بخاری میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث ہے کہ انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے طاعون کی حقیقت پوچھی تو آپ نے خبر دی کہ وہ ایک عذاب ہے جو اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں سے جس پر چاہے اسے بھیج دیتا ہے اور اسے مومنوں کے حق میں رحمت بنایا ہے۔ (فتح الباری 10/192، کتاب الطلب) اور دوسری حدیث میں ہے: کہ:
یہ ایک ایسے عذاب کا بقیہ ہے جو بنی اسرائیل پر بھیجا گیا تھا۔ اور مزید ایک دوسری میں ہے کہ: یہ ایک نبی کی بددعا ہے۔
حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے کہا کہ: علماء کی ایک جماعت کی عبارت میں " أعدائكم " کی جگہ لفظ " أخوانكم " ہے جو کہ غیر معروف ہے۔ اور حدیث کے طرق میں سے، بڑی جستجو کے بعد مشہور کتابوں اور نامزد رسالوں میں سے یہ کسی طریق میں نہیں ملا، اور اگر ثابت بھی ہو جائے تو بھائی ہونے سے مراد "اخوت تقابلی" ہو گی۔ جیسے کہا جاتا ہے " الليل والنهار " " اي اخوان متقابلان " اور حدیث " زاد اخوانكم من الجن " میں یہی معنی مراد ہے۔ انتہی
خلاصہ کلام یہ ہے کہ شرعا اس کی حقیقت، جنوں کا نیزہ مارنا ہے۔ وخنر، عذاب، نبی کی بددعا اور بقیہ حقائق پر حقیقت شرعی مقدم ہے۔
ابن الجوزی کہتے ہیں کہ جنوں کا نیزہ ہونے میں حکمت یہ ہے کہ شیطان اور شریر جن ہمارے دشمن ہیں۔ جس طرح کہ ان میں سے نیک اور اہل طاعت ہمارے بھائی ہیں، اور خدا تعالیٰ نے حکم کیا ہے کہ جنوں اور آدمیوں میں سے جو ہمارے دشمن ہیں ان کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی خوشنودی اور رضامندی کے لئے دشمنی اور لڑائی کریں۔ اور جب اکثر آدمیوں نے ان کی دشمنی سے انکار کیا اور ان سے صلح اور دوسری کو اختیار کیا تو اللہ تعالیٰ نے ان کے دشمن جنوں کو تعذیب کے طور پر ان پر مسلط کیا کہ، ان کو نیزے ماریں جو پار نہ نکلیں کہ ایسا مارنے میں تکلیف زیادہ ہوتی ہے۔ اور یہ مسلط کرنا اس لئے ہے کہ انہوں نے ان کا کہا مانا اور ان کے کہنے سے زمین میں فساد اور گناہ کئے۔ سو حکمت الٰہی کا یہ متقضی ہوا کہ ان کو ان پر مسلط کرے کہ وہ انہیں چوکے دیں اور نیزوں سے زخمی کریں۔ چنانچہ آدمیوں میں سے ان کے دشمنوں کو بھی ان پر مسلط کیا جب یہ فساد کریں اور کتاب اللہ کو پس پشت ڈالیں یعنی اس پر عمل کرنا چھوڑ دیں۔
تو یہ طاعون جنوں کی لڑائی ہے جس طرح کہ جہاد انسانوں کی لڑائی ہے اور یہ سب اللہ تعالیٰ اس پر بطور عذاب کے جو مستحق عذاب ہے اور اس کے حق میں شہادت و رحمت ہے جو ثواب کا اہل ہے، اور عقوبات میں عام طور سے یہ سنت الٰہی ہے۔ پھر مومنوں کے لئے گناہوں سے پاک ہونے کا سبب ہو جاتی ہے اور کافروں سے بدلا لینا ہے۔ انتهي كلام ابن الجوزي مع زيادة ۔
"ہوا کے جوہر کے فساد سے طاعون" کہنے والوں کا رد:
جو اطباء کہتے ہیں کہ یہ ہوا کے جوہر کے فساد کا نام ہے اس کا رد چند وجوہ سے ہو سکتا ہے:
اول: یہ کہ معتدل موسموں اور آب و ہوا کی رو سے جو پاکیزہ اور عمدہ شہر ہیں ان میں بھی واقع ہوتا ہے تو جوہر ہوا کا فساد کس طرح ہوا۔
دوم: کہ اگر یہ ہوا کہ فساد سے ہوتا تو چاہیے تھا کہ عموما آدمیوں اور حیوانات میں بھی پڑتا، حالانکہ بہت سے حیوانات و انسان ایسے ہیں کہ طاعون اور وبا ان کو پہنچتی ہے اور پھر وہ بچ جاتے ہیں، اور دوسرے اشخاص و حیوانات جو مزاج میں ان کے مشابہ ہوتے ہیں ان کو سرے سے اثر پہنچتا ہی نہیں۔
سوئم: کہ یہ ہوا کے فساد سے ہوتا تو چاہیے تھا کہ، سب اعضاء اور تمام بدن میں ہوا کرتی، کیونکہ ہوا تمام بدن کو لگتی ہے، حالانکہ یہ غالبا بدن کے ایک جرو خاص میں پیدا ہوا کرتا ہے اور دوسرے عضو تک تجاوز نہیں کرتا۔
چہارم: یہ کہ جو مرض اسباب طبیعہ سے پیدا ہوتے ہیں تو طبعی دواؤں میں سے ان کے لئے کوئی دوا بھی ہوتی ہے بخلاف طاعون و وباء کے، کہ اطباء اس کے علاج سے عاجز ہیں حتی کہ بڑے حاذق طبیب یہ اقرار کر چکے ہیں کہ اس بیماری کا کوئی علاج نہیں، نہ ہٹانے والا اور نہ ہی روکنے والا ہو، سوا اس خالقِ (حقیقی) سے جس کی بڑی حکمت ہے اور اس کو دور کرنا جانتا ہے۔
حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ فتح الباری میں رقمطراز ہیں کہ:
اطباء کو اپنے اس قول کے موجب جو انہوں نے کہا یہ ہے کہ: اس امر کی دریافت کہ طاعون جنوں کا نیزہ مارنے سے ہے، شارع علیہ السلام کی خبر کے بغیر معلوم نہیں ہو سکتا اور عقل کو اس میں کوئی دخل نہیں اور جب ان کے پاس اس باب میں شارع علیہ السلام کا بتایا ہوا علم نہیں تھا تو انہوں نے یہ سمجھا کہ قریب تر یوں ہے کہ کہا جائے کہ، طاعون جو ہر ہوا کے فساد سے ہوتا ہے سو شرع وارد ہو گئی اور اللہ کی طرف سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی قطعی علم حاصل ہو گیا تو عقل کی تجویزِ تخمین باطل ہو گئی۔ (فتح الباری 10/181)
امام ابن القیم رحمۃ اللہ علیہ کا رد اور طاعون سے محفوظ رہنے کا طریقہ:
حافظ ابن القیم رحمۃ اللہ علیہ نے زاد المعاد فی ھدی خیر العباد میں کہا کہ:
یہ علل اسباب جو شارع نے بتائے اطباء کے پاس کوئی ایسی حجت نہیں جو ان کو رد کر دے، جس طرح کہ ان کے پاس کوئی ایسا ثبوت بھی نہیں جس سے ان کو سمجھ سکیں، اور حضرت انبیاء علیہم الصلاۃ والسلام اللہ تعالیٰ کے معلوم کرانے سے ان چیزوں کی خبر دیتے ہیں جو لوگوں سے پوشیدہ ہیں اور طبیبوں نے طاعون کے جو آثار معلوم کئے ہیں ان میں بھی ان کی کوئی ایسی دلیل نہیں جس سے اس امر کو منع کریں کہ یہ آثار ارواح کے ذریعہ سے ہیں، کیونکہ ارواح کی تاثیر طبیعت میں اور طبیعت کے امراض اور اس کی ہلاکت میں ایسا یقینی امر ہے کہ اس سے کوئی انکار کر سکتا ہے نہ ارواح اور ان کی تاثیر، اجسام اور اجسام کے طبائع کے ارواح کا اثر قبول کرنے سے منکر ہے، ماسوائے اس شخص کے جو تمام لوگوں کی نسبت بڑا جاہل ہو گا۔ اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ ازواح کو بنی آدم کے اجسام میں وبا پیدا ہونے اور ہوا کے فاسد ہونے کے وقت تصرف دیتا ہے جس طرح کہ ان کو بعض موادردیہ کے غالب ہونے خصوصا خون، صفراء، سوادء اور منی کے غلبہ کے وقت تصرف دیتا ہے جو نفس میں ہئیت ردی کو پیدا کرتے ہیں اس لئے کہ شیطانی ارواح ان اہل عوارض کے ساتھ ان کے غیر نسبت زیادہ تاثیر کی طاقت رکھتے ہیں۔ (زاد المعاد: 4/39)
تو ان اسباب سے زیادہ طاقتور کسی دافع کی ضرورت ہے جو ان کا دفاع کر سکے وہ:
1۔ ذکر (الٰہی)، دعا، اللہ تعالیٰ کی جناب پاک میں زاری، گڑگڑانا (یعنی استغفار کرنا)
2۔ صدقہ کرنا
3۔ اور قرآن مجید کی تلاوت ہے
کیونکہ ان چیزوں کے سبب فرشتوں کے ارواح نازل ہوتے ہیں جو ارواحِ خبیثہ کو مغلوب کر کے ان کا اثر باطل کر دیتے ہیں اور ان کی تاثیر دور کر دیتے ہیں۔ ہم نے اور ہمارے احباب نے اس کو اتنی بار آزمایا ہے جس کی تعداد اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ (زاد المعاد 4/40)
اس عبارت میں اس بات پر دلالت ہے کہ طاعون جنوں کے نیزہ چوکنے سے ہوتا ہے اور ذکر، دعا اور صدقہ اس کا دافع ہے، لیکن فقیر نے شارع علیہ السلام سے ان چیزوں کی تصریح نہیں پائی مگر عموم ادلہ اس بلا کو بھی شامل ہے اس لئے کہ یہ اللہ تعالیٰ کا بندوں پر غضب اور عذاب ہوتا ہے اور حدیث شریف میں ہے:
الصدقة تطفي غضب الرب (ترمذی/احمد شاکر 3/43 مصابیح 12/50)
یعنی اللہ تعالیٰ کے لئے صدقہ و خیرات دینے سے خدا کا غضب فرو ہو جاتا ہے اور علی ھذا القیاس ذکر و استغفار بھی بلا کے ٹالنے کے موجب ہیں۔ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے آفات میں قنوت کا مطلقا پڑھنا منقول ہے تو اس آفت کو بھی شامل ہو گا۔ اسی لئے شیخ الاسلام رملی اور علماء کی ایک جماعت نے فتویٰ دیا ہے کہ طاعون دور کرنے کے لئے قنوت پڑھنا مستحب ہے، اس لئے کہ طاعون بھی بڑی آفات میں سے ہے اور ائمہ ہر بلا میں دعا کے مستحب ہونے کے قائل ہیں۔ اور شیخ رافعی اور نووی رحمہما اللہ نے کہا ہے کہ: قنوت کا حوادث کے لئے جیسے وبا وغیرہ، سب فرضوں میں پڑھنا مشروع ہے۔ اسی طرح اعدائے دین شہادت کا سبب ہیں، پس طاعون میں بطریق اولیٰ مستحب ہونا چاہیے اور دعائے مذکور سے یہ نہیں لازم آتا کہ یہ دعاء صحت و شہادت کے دور کرنے کے لئے ہے، کیونکہ اس دعا کا حاصل یہ ہے کہ: اللہ تعالیٰ ہمارے دشمن جنوں کو ہم پر مسلط نہ کرے، بلکہ ان پر غالب کر دے۔
اور سیوطی رحمۃ اللہ علیہ کی شرح ابیات التثبیت میں ہے کہ: طاعون اور وبا کو دور کرنے کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر کثرت سے درود پڑھنا مجرب ہے۔
[1] ترجمہ: اس ملک سے سفر نہ کرنا جان سے وزنی ہے، روحانی غذا کا قحط دل کا مردہ ہونا ہے۔ (خلیق)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب