السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
اگر مطلق مرض میں ضرر نہ بھی ہو اور وضو کرنے سے مرض کے زیادہ ہونے کا اندیشہ بھی نہ ہو بلکہ سفر میں بھی صرف حرج کی بنا پر تیمم کرنا درست ہے یا نہیں؟ اور﴿فَلَمْ تَجِدُوا مَاءً﴾ کی قید جنابت اور حدیث سے خاص کرنے کے احتمال کو بھی کسی معتبر عالم نے اختیار کیا ہے یا نہیں؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
صرف حرج کی بنا پر تیمم ([1]) کرنا درست نہیں، کیونکہ آیت کریمہ " وَإِن كُنتُم مَّرْضَىٰ" کے اقتضا سے معلوم ہوتا ہے کہ مرض کے حق میں رخصت کی وجہ ضرر ہے، اور اس بات کو صاحب لغت سمجھ سکتا ہے مجتہد ہی کی کوئی تخصیص نہیں البتہ ضرر کی تحدید میں کلام ہے! شافعیہ کہتے ہیں ایسی مرض ہو جس میں پانی کے استعمال کرنے سے عضو کی منفعت کے ضائع ہونے کا اندیشہ ہو یا اچھا ہونے میں تاخیر واقع ہو جائے یا کسی ظاہری عضو میں گہرا نقص پیدا ہو جائے۔ اور حنفیہ کہتے ہیں کہ تیمم کی رخصت تب ہے کہ پانی کے استعمال سے مرض کی شدت یا دیر سے اچھا ہونے کا اندیشہ ہو جیسا کہ بخار اور چیچک وغیرہ، اور صاحب مصفی نے کہا کہ: ضرر کی تشخیص بھی عرف کے حوالہ سے ہو گی۔ انتہی
بہرحال اعتبار مطلق کا نہیں بلکہ ضرر پہنچے کا ہے۔ اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے فرمان " أَوْ عَلَىٰ سَفَرٍ " کا ظاہر یہ ہے کہ سفر کا ذکر صورت سمجھانے اور ذہن سامع کی طرف قریب کرنے کے لئے ہے کہ پانی کی عدم دستیابی کی صورت میں سامع کے خیال میں جلدی آ جائے اور احادیث و اخبار میں بھی یہی ثابت ہے اور آیت کا بھی یہی مقتضی ہے کیونکہ " فَلَمْ تَجِدُوا مَاءً " (سورۃ النساء: 43) سے یہ سمجھا جاتا ہے کہ تیمم کے حکم کا مدار پانی کی عدم دستیابی پر ہے۔ مصفی (شرح مؤطا) میں ہے " فَلَمْ تَجِدُوا مَاءً " ظاہر یہ ہے کہ یہ سفر سے متعلق ہے کیونکہ مرض میں پانی کا ہونا تیمم کو مانع نہیں، اور یہ بھی احتمال ہے کہ مراد یہ ہو کہ پانی کے استعمال پر قادر نہ ہو، اس لئے کہ مریض کا پانی پانا اور نہ پانا برابر ہے۔ اور امام شوکانی کی تفسیر سے ظاہر یہ ہے کہ " فَلَمْ تَجِدُوا مَاءً " کی قید کو جنابت اور تیمم سے خاص کرنے کا احتمال ہے، چنانچہ کہا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان " فَلَمْ تَجِدُوا مَاءً " اگر یہ قید جمیعِ ما تقدم کی طرف راجع ہو یعنی شرط کے بعد جس کا ذکر ہوا وہ مرض، سفر، صحراء سے آنا اور عورتوں سے صحبت کرنا ہے۔
اس میں اس بات کی دلیل ہے کہ صرف سفر اور مرض سے تیمم کرنا جائز نہیں ہوتا بلکہ اس کے ساتھ پانی کی عدم دستیابی بھی لازم ہے، پس مریض کو تیمم کرنا جائز نہ ہو گا مگر جس وقت پانی میسر نہ آئے۔ اور علی ھذا القیاس مسافر کو بھی تیمم کرنا تبھی جائز ہو گا جبکہ پانی نہ ملے، لیکن اس پر یہ اشکال ہے کہ پانی کے نہ ملنے کے وقت تو تندرست بھی مریض کی طرح تیمم کر سکتا ہے۔ پس مرض اور سفر کے صریح ذکر کرنے کے لئے ضرور کوئی فائدہ ہونا چاہیے! بعض نے یہ وجہ بیان کی ہے کہ مریض کے بارے میں پانی کی عدم دستیابی اکثر واقع ہوتی ہے۔ اور اگر قید پچھلی دو صورتوں (یعنی صحراء سے آنے اور عورتوں سے صحبت کرنے) کی طرف راجع ہو جیسے بعض مفسرین نے کہا تو اس میں یہ اشکال ہو گا کہ جس پر مریض اور مسافر کا لفظ صادق آئے اس کو تیمم کرنا جائز ہے، خواہ پانی مل سکے اور اس کے استعمال پر بھی قادر ہو اور بعض نے کہا کہ یہ قید پچھلی صورت کی طرف راجع ہے کیونکہ ان میں اس کا وقوع کم ہوتا ہے، لیکن پہلی دو صورتوں میں بھی اس کا اعتبار کیا جائے گا۔ اور آپ کو یہ خبر ہے کہ یہ کلام ساقط اور نکمی توجیہ ہے۔
امام مالک رحمۃ اللہ علیہ اور ان کے تابعین نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے تیمم کی شرط میں مرض اور سفر کا ذکر کیا اس لئے پانی نہ ملنا اکثر انہی دو گروہوں کے بارے میں واقع ہوتا ہے، بخلاف اس شخص کو جو اپنے گھر میں ہے کیونکہ اکثر اس کے پاس پانی موجود ہوتا ہے اللہ تعالیٰ نے اس کا ذکر صراحۃ نہیں کیا۔ انتہی۔ اور ظاہر یہ ہے کہ مرض میں تیمم کرنا جائز ہے اگرچہ پانی موجود ہو بشرطیکہ اس کے استعمال سے فی الحال یا آئندہ ضرر ہو اور یہ لازم نہیں کہ عضو کے تلف ہو جانے کا خوف ہو۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿يُريدُ اللَّهُ بِكُمُ اليُسرَ وَلا يُريدُ بِكُمُ العُسرَ ...﴿١٨٥﴾... سورةالبقرة
یعنی اللہ تعالیٰ تم پر آسانی چاہتا ہے اور تمہارے لئے مشکل نہیں چاہتا۔
دوسری جگہ ارشاد فرمایا:
﴿وَما جَعَلَ عَلَيكُم فِى الدّينِ مِن حَرَجٍ...﴿٧٨﴾... سورة الحج
اور تم پر دین میں کوئی مشکل نہیں رکھی۔
اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ۔۔۔ ان الدين يسر ۔۔۔ یعنی دین آسان ہے۔ اور فرمایا ۔۔۔ يسروا ولا تعسروا ([2]) یعنی آسانی کرو اور دشواری نہ کرو کہ سخت گیری سے دین کو لوگوں پر مشکل بنا دو۔
اور جب سفر میں ایک شخص کے سر میں زخم ہو اور اسے غسل کی ضرورت ہوئی تو ساتھیوں سے تیمم کی رخصت پر عمل کرنے کا مسئلہ پوچھا تو انہوں نے کہا کہ تیمم کی رخصت جب ہے کہ پانی نہ ملے اور تمہارے پاس پانی موجود ہے، اس لئے ہم تو اجازت نہیں دیتے۔ آخر اس نے غسل کیا اور مر گیا۔ یہ خبر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو پہنچی تو آپ نے فرمایا: قتلوه قتلهم الله ([3]) یعنی خدا انہیں غارت کرے بیچارے کا خون کر دیا اور حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بعثت بالحنيفية ([4]) یعنی مجھے سہل شریعت کا حکم ہوا۔
پس اگر یہ کہا جائے کہ پانی کے نہ پائے جانے کی قید سب کی طرف راجع ہے تو مرض کے صراحۃ ذکر کرنے سے یہ فائدہ ہوا کہ جب پانی مریض کو نقصان کرے بخلاف تندرست کے، تو پانی کی موجودگی کی حالت میں بھی تیمم جائز ہے، اور یہ قید اس کے باری میں تب معتبر ہو گی کہ پانی کا استعمال ضرر نہ کرے۔ کیونکہ صرف مرض میں بھی اگر پانی نقصان نہ کرے اور پانی کی عدم دستیابی کا خطرہ ہے کہ مریض مرض کے ضعف کے سبب پانی کی تلاش سے عاجز ہوتا ہے۔ اور مسافر کے صریح ذکر کی وجہ تو ظاہر ہے، کیونکہ سفر میں بعض مقامات پر تو پانی ملتا ہی نہیں جو کہ اکثر ہوتا رہتا ہے۔ انتہی کلامہ
[1] تیمم کا صحیح طریقہ:
ضرب النبى صلى الله عليه وسلم بكفيه الى الارض ونفخ فيها ثم مسح بهما وجه وكفيه (فتح الباری 1/443 ابن ماجہ 1/188 فوائد عبدالباقی مسلم 1/280، مصابیح 1/239)
دوسری کتب میں کچھ الفاظ تغیر و تبدل ہیں کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دونوں ہاتھوں کو زمین پر مارا پھر ان کو جھونکا اور اپنے دونوں ہاتھوں کے ساتھ اپنے چہرہ اور دونوں ہاتھوں کا مسح کیا۔ (جاوید)
[2] فتح الباری 10/524، 1/93، مسند احمد 5/69، مسلم 3/1359، مصابیح 3/20
[3] ابوداؤد 1/339، دارقطنی 1/189، 190
[4] طبرانی کبیر 8/170 المجمع الزوائد 4/302
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب