السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ہم لوگوں کی مسجد توڑ کر سخت آفت میں جان پھنسی ہے، سخت پس و پیش میں پڑے ہوئے ہیں۔ کہ گورستان پر مسجد بنانا اور نماز پڑھنا جائز نہیں، مگر جو ہڈیاں نکلی ہیں، وہ ڈیڑھ برس پہلے کی گور شدہ ہیں، اب اس پر بھی گورستان کا حکم عائد کر کے مسجد بنانا جائز ہے یا نہیں؟ اور یہ بات قابل غور ہے کہ جس زمانہ میں یہ مسجد بنی تھی، اس وقت ان اطراف میں کوئی مسجد نہیں تھی، اور پہلے لوگ بھی غالباً مشرک تھے۔ لہٰذا ایسی حالت میں بھی وہاں مسجد بنانا جائز ہے یا نہیں؟
_______________________________________________________________________________
مسجد نبوی کی جگہ پہلے مشرکین عرب کا قبرستان تھا، اس لیے صورت مرقومہ میں مسجد بنانا ناجائز نہیں ہے۔ منع نہیں:
شرفیہ:… یہ قیاس یا استنباط صحیح اس لیے کہ مشرکین کے مردوں کا احترام نہیں، جیسا کہ مشرکین کی لاشوں کو کنویں میں ڈال دیا تھا، کنواں بھی گندے پانی کا تھا۔ متفق علیہ مشکوٰۃ ص۳۴۵
اور اہل اسلام کی لاشوں اور مردوں کا احترام ہے ان کے مردے کی ہڈی توڑنے کا اتنا ہی گناہ ہے جیسے زندہ کی۔
أن رسول أاللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم قال: «کسر عظم المیت ککسرہ حیا» رواہ ابو داؤد واسنادہ علی شرط مسلم وزادہ ابن ماجة من حدیث أم سلمة فی الاثم انتھیٰ کذا فی بلوغ المرام ص۴۰ وعن عمرو بن حزم قال رأنی النبی صلی اللہ علیہ وسلم متکیا علی قبر فقال لا توذٖ صَاحبِ ھذا القبر الحدیث رواہ أحمد مشکوة ص ۱۴۹))
قال الحافظ فی الفتح اسنادہ صحیح کذا فی تنفیع الرواة ص ۳۳۳
پس اہل اسلام کی قبروں کو کھود کر ہڈیاں نکال کر مسجد بنانا قطعاً ممنوع ہے۔ (ابو سعید شرف الدین دہلوی، فتاویٰ ثنائیہ جلد اول ص ۲۶۴)